نواب محمد اسماعیل خان
نواب محمد اسماعیل خان کا تعلق افغان قبیلہ بنگش سے تھا۔نواب اسماعیل خان نے ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کرنے کے بعد علیگڑھ چلے گئے پھر کیمرج یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری لے کر انرٹمپل (Inner tmple)سے بیرسٹری کا امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ۔ دس برس ولایت گزارنے کے بعد اپنے آبائی شہر میرٹھ آکر وکالت کا آغاز کیا ۔1917ء میں ہوم رول لیگ میں شرکت کی۔1919 حکومت کے پاس کردہ قانون رولٹ ایکٹ جس کا مقصد بنیادی انسانی حقوق اور شخصی آزادی سلب کرنا تھا اس کے خلاف حضرت قائداعظم نے مرکزی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا تھا نواب اسماعیل نے خلافت کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے رولٹ ایکٹ کے خلاف اور جلیاں والا باغ میں مرنے والوں کے حق میں وسیع احتجاجی پروگرام تیار کیا ۔ میرٹھ ، بلند شہر ، آگرہ ، بریلی ، لکھنو ، گورکھ پور ، مظفر نگر کے علاوہ ہر شہر ہر نگرمیں ہنگامہ برپا کردیا۔30 دسمبر 1927ء کو مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں مسلم لیگ کے جناح گروپ کی حمایت اور شفیع گروپ کی مخالفت کی ۔30دسمبر 1929ء کو لاکھوں فرزندان توحید نے لاہور میں آپ کی قیادت میں ایک عظیم الشان جلوس نکالا جسکے تذکرے کے لئے علیحدہ کالم درکار ہے ۔ 1930ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس الہ آباد کے دوسرے دن علامہ اقبال کے رخصت بعد اجلاس کی کرسی صدارت پر نواب اسماعیل خان متفقہ طور پر رونق افروز ہوئے ۔ اسی اجلاس میں مسلم لیگ کے آئین میں ترمیم کے لئے جو کمیٹی قائم ہوئی تو آپ اس کے سربراہ تھے ۔
تحریک خلافت کے دوران مسلم لیگ کے مقاصد کو بڑا نقصان پہنچا کیونکہ مسلم رہنمائوں کی پوری توجہ تحریک خلافت پر مرکوز رہی جس سے مسلم لیگ پس منظر میں چلی گئی ۔ خصوصاً 1925 سے 1935تک مسلم ہند میں کوئی بڑی تحریک نظر نہیں آئی مگر اس خاموش عشرے میں بھی نواب اسماعیل مسلم اقلیتی صوبوںمیں مسلسل مصروف عمل ملیں گے ۔ بے شمار سیاسی سماجی تنظیموں کی سرپرستی رہنمائی کرتے رہے جن میں آل انڈیا مسلم پارٹیز کانفرنس ، آل انڈیا مسلم کانفرنس اور مسلم یونیٹی بورڈ شامل ہیں ۔آپ 1926ء میں مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد صفحہ اول میں رہتے ہوئے تادم مرگ بڑی دیانتداری وفاشعاری اور جانفشانی سے کام کیا ۔ آپ کی زندگی پر نظر ڈالنے سے ایک بھرپور ہمہ جہد ہمہ گیر شخصیت کا تصور سامنے آتا ہے ۔ 18اکتوبر 1936ء میں مسلم لیگ لکھنو میں بہت بڑا جلسہ ہوا جس میں تقریبا ً پچاس ہزار مسلمانوں نے شرکت کی اس میں قائداعظم نے جو ٹوپی پہنی تھی وہ عوام نے بے حد پسندکرتے ہوئے اجلاس ختم ہونے سے پہلے عوام نے اپنا لی وہ ٹوپی نواب اسماعیل خان سے لے کر حضرت قائداعظم نے پہنی تھی جو بعد میں جناح کیپ کہلائی ۔یہ حقیقت بھی پریشان کن ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلم لیگ کمزور اور قلیتی صوبوںمیں اس قدر مضبوط تھی کہ یوپی کی چھیاسٹھ مسلم نشستوں میں سے کانگریس کو صرف ایک سیٹ ہی ملی باقی تمام نشستیں مسلم لیگ نے حاصل کیں ۔ تمام مسلم رہنمائوں کی اجتماعی رائے یہی تھی کہ اتنی بڑی کامیابی کا سہرہ نواب اسمعیل کی بے غرض اور پرخلوص قیادت کے سر ہے کیونکہ یوپی میں بڑے بڑے مسلم لیگی نام ملیں گے جن میں لیاقت علی خان ، راجا صاحب محمود آباد ، چوہدری خلیق الزماں مگر اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ اقلیتی صوبوںمیں مسلم لیگ کو مضبوط پوزیشن دلانے میں کوئی دوسرا نام نواب اسماعیل خان کا ہمسر نہ تھا ۔ آپ زبردست مقرر مدلل مبلغ ہونے کے ناطے یوپی میں منفرد مقام کے حامل تھے ۔ ساری زندگی مسلم قوم کی عزت وقار کی بحالی کیلئے وقف رکھی ۔ آپ کبھی میرٹھ ، بلند شہر کبھی گورکھ پور کانپور کبھی مظفر نگر اور الٰہ آباد تو کبھی بریلی لکھنو ہمہ تن گوش درس حریت دیتے نظر آئیں گے ۔24مارچ 1940ء کو نواب اسماعیل خان نے قراردادلاہور کی بطور صدر صوبہ مسلم لیگ یوپی و بہار تائید کی۔
نواب اسماعیل خان 1926ء سے 1950ء تک مسلم لیگ کی مرکز ی کونسل کے رکن 1933 سے 1950ء تک یوپی کے صوبائی صدر رہے ۔1923ء میں میرٹھ سے مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔1926ء میں دوبارہ آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے ۔1926 سے 1945ء تک تمام الیکشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پر جیتتے رہے ایسا طویل شفاف ریکارڈ حضرت قائداعظم (حلقہ بمبئی ) کے بعد صرف نواب اسماعیل خان کا ہے۔ آپ کا حلقہ انتخاب میرٹھ بلند شہر خورجہ اور نگینہ کے شہری اور دیہی علاقوں پر مشتمل تھا ۔ مسلم لیگ کا کوئی سیاسی معرکہ ہو یا سماجی میدان آپ ہر مرحلے پر سربکف نظر آئیں گے ۔1944ء بنگال میں قحط سالی ہوئی تو مسلم لیگ کمیٹی کے سربراہی آپ کے حصے میں آئی ۔ 1945ء میں شملہ کانفرنس میں شریک وفد میں آپ نظر آئیں گے ۔1946ء میں برطانوی حکومت کی بدعہدی اور کانگریس نوازی کے خلاف راست اقدام کمیٹی کیلئے ایک فولاد عزم واعصاب کا مالک قائددرکار تھا ۔ حضرت قائداعظم کی نگاہ انتخاب نواب اسماعیل خان تھے جس فریضے کو آپ نے بڑی ہمت اور جواں مردی سے نبھایا ۔1945ء سے 1950ء پھر 1950 سے 1952 بھارتی پارلیمنٹ کے رکن رہے ۔1947سے 1948ء تک علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے ۔ پاک بھارت دونوں حکومتوں آپ کو اعلیٰ عہدہ کی پیش کش کی مگر آپ نے بڑی بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے مخلوق خدا کی خدمت کا صلہ رب کائنات سے درکار ہے کسی سرکار سے نہیں ۔آپ اپنے نام کے آگے ذبیح لکھتے ۔ یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آئی جس دن آپ کا وصال ہوتا ہے وہ عید قربان کا دن 28جون 1958ء تھا آپ کو ہند الولی نائب النبی جناب نظام الدین اولیاء کے احاطہ دہلی میں اپنے دادا اور والد کے پہلو میں جگہ ملی اللہ ہماری قیادت کو ان بزرگوں رہنمائوں جیسا ایثار اور خلوص عطافرمائے تاکہ ہمارا رخ صراط مستقیم کی جانب ہوسکے ۔