ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کی وجہ!!!!!!
ایک طرف میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کی سرکردہ شخصیات کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف اس جماعت کے اراکین تحریک انصاف کی طرف آ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اور انکی جماعت کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو اس سے بھی زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کی جماعت کے پچاس فیصد سے زائد قومی اسمبلی اور پچاس فیصد سے زائد صوبائی اسمبلی کے اراکین جماعت کو چھوڑ جائیں گے۔ ن لیگ کے سیاست دانوں کی ٹوٹ پھوٹ پر مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ ماہرین اپنے اپنے انداز میں موجودہ سیاسی صورت حال اور ن لیگ کو درپیش مسائل پر خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کے نزدیک اس توڑ پھوڑ کے پیچھے غیر سیاسی طاقتیں ہیں، بعض اسے مجبوری قرار دے رہے ہیں اور کچھ اسے ضرورت قرار دیتے ہیں۔ موجودہ ٹوٹ پھوٹ کو سمجھنے کے لیے پاکستان کی علاقائی اور دیہات کی سیاست کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار خود شریف خاندان ہے۔ جب مقامی قیادت کو اسکا جائز مقام نہ دیا جائے تو ان سے غیر ضروری توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ ہماری تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے انہوں نے اپنے کارکنان کو کبھی عزت نہیں دی نہ انہیں مشاورتی عمل میں شامل کیا، نہ فیصلہ سازی میں شریک کیا نہ انہیں اہمیت دی ان حالات میں بالخصوص دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کا ایسے حالات میں کسی بھی سیاسی جماعت سے جڑے رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنا حلقہ جیتنے کے لیے کسی سیاسی جماعت کے بڑے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں اکثریت برسہا برس سے انتخابات جیت رہی ہے۔ یہی الیکٹیبلز ہر دور میں حکومتوں کو بنانے اور گرانے کے عمل کا سب سے بڑا حصہ بنتے ہیں۔ ان سیاست دانوں کی اکثریت نہ تو کسی کرپشن میں ملوث ہوتی ہے نہ ہی گھپلوں کا حصہ ہوتے ہیں نہ انکا کوئی بڑا مفاد سیاسی جماعتوں سے جڑا ہوتا ہے۔ وہ انتخابات میں حصہ مقامی سیاست اور ذات برادری کے مقابلے کے لیے لیتے ہیں۔ انکا سیاسی جماعتوں سے لگاؤوقتی اور ضرورت کی حد تک محدود ہوتا ہے۔ جب کسی سیاست دان کا کسی بھی سیاسی جماعت سے لگاؤ ضرورت یا مجبوری کی حد تک ہو، مرکزی قیادت انہیں قومی سیاست میں شامل کرے نہ انہیں انکا جائز مقام دے۔ یوں مفادات سے اتحاد کا سفر شروع ہوتا ہے اور مفادات پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کا سب سے بڑا مسئلہ خاندانی اختلافات ہیں۔ ایک بڑا حلقہ حمزہ شہباز کی قیادت میں کام کرنے کو تیار نہیں ہے جماعت کے اندر اسی انداز میں مریم نواز کی قیادت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ جماعت میں موجود سینئر سیاسی رہنماؤں کی اکثریت حمزہ اور مریم کو ذہنی طور پر متبادل قیادت تسلیم نہیں کرتی جبکہ دونوں بھائی موروثی سیاست کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ دہائیوں تک نواز شریف اور شہباز شریف کو قائد ماننے کے بعد سینئر سیاستدانوں کے لیے "شرفاء " کی اگلی نسل کے اگے سر جھکانا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ چودھری نثار علی خان کی علیحدگی اس بغاوت اور موروثی سیاست کو تسلیم نہ کرنے کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی نمایاں لوگ یہی سوچ رکھتے ہیں۔ بہت سے اراکین پارلیمنٹ یہ سمجھتے ہیں کہ شریف خاندان کی تقسیم کے بعد اب ان کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ ن لیگ کے اراکین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کی متبادل سیاسی قیادت بھی اپنے بڑوں کی طرح سینئر قیادت کو عزت نہیں دیتی ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ نسل در نسل عزت نفس کو مجروح کیا جاتا رہے اور لوگ ساتھ بھی دیتے رہیں۔ بہت سے لوگ صرف مریم نواز کو اسکا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے اس نقصان میں میاں حمزہ شہباز شریف بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ بالخصوص دیہی علاقوں کے سیاست دان جب یہ بھی یقین رکھتے ہوں کہ ان کے حلقے کسی بھی سیاسی جماعت کے بڑے چہرے کے محتاج نہیں ہیں بلکہ ہر سیاسی جماعت کے بڑوں کو نمبر پورے کرنے کے لیے انکی ضرورت رہتی ہے۔ یہ وہ زمینی حقائق ہیں جنہیں کوئی بڑا سیاست دان تسلیم نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس فارمولے کو ماننے سے خود ساختہ مقبولیت کا بت ٹوٹ جاتا ہے۔
اس حقیقت کے بعد بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسکی جڑیں عوام میں بہت مضبوط ہیں تو کانٹوں کو پھول سمجھنے والے کو کیا کہا جا سکتا ہے، کوئی رات کو دن سمجھنا شروع کر دے تو حقیقت کیسے بدل سکتی ہے۔ ان حالات میں بھی اگر میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کا ایک دھڑا اگر یہ کہتا ہے کہ لوگ نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں تو دعویٰ کرنے والوں کے لیے یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ اسے دیوانے کا خواب تو کہا جا سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ خواب غفلت سے جاگ جائیں حقیقی زندگی میں آئیں، حقیقت کا سامنا کریں اور دیکھیں کہ چیزیں کس تیزی کے ساتھ بدل رہی ہیں اور ان کے ہاتھوں سے طاقت کیسے سرکتی جارہی ہے۔
قارئین کرام یہی مکافات عمل ہے جب آپ جھوٹ کی بنیاد پر، مفادات کی بنیاد پر عمارتیں تعمیر کرتے ہی۔ تو انہیں گرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی حقیقت یہی ہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن ملکی سیاست، اقتدار، تقسیم اقتدار اور انتقال اقتدار کا فارمولا یہی ہے۔ کنونشن لیگ سے لیکر آج تک جتنی بھی سیاسی جماعتیں معرض وجود میں آئی ہیں ان سب کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ یہ سب جماعتیں وقت اور حالات کے مطابق بنتی، پھیلتی، سکڑتی اور ٹوٹتی رہی ہیں۔ مسلم۔لیگ کا یہ عالم ہے کہ الف سے ی تک کئی مسلم لیگیں بنی ہوئی ہیں، پیپلز پارٹی کے بھی کئی حصے ہو چکے ہیں۔ اس لحاظ سے جماعت اسلامی کو کریڈٹ دینا پڑے گا کہ ان میں کوئی تقسیم یا حصہ نہیں بنا۔ وہ مختلف حالات اور ادوار میں اپنی اصل حالت میں آج بھی قائم ہیں۔ ماضی کے تجربات اور واقعات کی روشنی میں آج ایک مرتبہ پھر نواز شریف کی مسلم لیگ ٹوٹنے کو ہے۔ یہ کام بہت پہلے ہو چکا ہوتا اگر چودھری نثار علی خان اگر مگر کا شکار نہ ہوتے۔ آج مسلم لیگ اسمبلی میں ایک بڑی جماعت کے طور پر نظر آ رہی ہے تو اسکا کریڈٹ چودھری نثار علی خان کو جاتا ہے، میاں نواز شریف انکی صاحبزادی مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو انکا مشکور ہونا چاہیے۔ اگر چودھری نثار علی خان دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے پہلے بروقت کوئی واضح موقف اختیار کر لیتے تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی۔
موجودہ حالات، پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اور دیہی علاقوں کی سیاست کی تاریخ پاکستان تحریک انصاف کی پہلی صف کی قیادت کے لیے ایک سبق ہے اگر پی ٹی آئی اس روایت کو بدلنا چاہتی ہے تو اسے تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہو گا۔ جب تک دیہات کے سیاست دانوں کو عزت نہیں دی جائے گی انہیں ان کا جائز مقام اور وقار نہیں دیا جائے گا، انہیں مشاورتی عمل اور فیصلہ سازی میں شریک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک روایتی سیاست کو نہیں بدلا جا سکتا۔ عوامی نمائندوں کی عزت سے ہی روایتی سیاست کو دفن کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان اس مسئلے پر ضرور توجہ دیں گے۔