موبائل کارڈ پر ایڈوانس ٹیکس بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری
اسلام آباد (اعظم گِل۔ خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے موبائل فون پر ایڈوانس ٹیکس کو معطل کرنے کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے فیصلے کو کالعدم کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ تحریری جواز دیے بغیر اور متعلقہ لاء افسر یا مجاز اتھارٹی کے نمائندے کو سنے بغیر کسی قانون کو معطل نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس اعجا زالاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اتفاق رائے سے موبائل فون کارڈ ری چارج کرنے پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی بحال کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا ہے تاہم جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلے کی وجوہات سے اختلاف کیا ہے اور اپنے الگ نوٹ میں قرار دیا ہے کہ آئین کے مطابق از خود نوٹس لے کر 11جون کا عبوری آرڈر جاری کیا گیا تھا۔ اکثریتی وجوہات میں عدالت عظمٰی نے موبائل فون کارڈ پرایڈوانس ٹیکس کی وصولی کو اتفاق رائے سے بحال کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ کا موبائل فون کارڈ ری چارج پر ایڈوانس ٹیکس وصولی کو روکنے کے11جون 2018کے عبوری آرڈر کو غیر آئینی قرار د یا ہے اور کہا ہے کہ قانون بنانا پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کو بلاجواز معطل نہیں کیا جاسکتا۔اکثریتی فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریرکیا ہے اور چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے اس سے اتفاق کیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 13صفحات پر مشتمل فیصلہ میں 24اپریل کوجاری کئے گئے مختصرفیصلہ کو بھی تفصیلی فیصلہ کاحصہ بنایاہے۔ مختصر فیصلے میں عدالت نے موبائل فون سروس پر ایڈوانس ٹیکس کے بارے ازخود نوٹس کیس نمٹاتے ہوئے قرار دیا تھا کہ عدالت ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلزکے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے تفصیلی فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ پبلک ریونیو اور ٹیکس معاملات پر مداخلت کیے بغیر مقدمے کو نمٹادیا جاتا ہے۔ فیصلے میں آئین کے آرٹیکل184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اختیار غیر معمولی صورتحال میں مفاد عامہ اور بنیادی حقوق کے اطلاق کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے اور 184(3) کے استعمال کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو حاصل ہے، مبہم نوٹ پر یہ اختیار استعمال نہیں کیا جا سکتا۔