چترال اور کیلاش میں آصف جاہ کی بے چین روح
ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنے اوپر سیرو تفریح کوجیسے حرام کر لیا ہو۔ دیر، چترال اور کیلاش کی خوبصورت وادیوں میں بھی وہ قدرتی نظاروں میں محو ہونے کی بجائے دکھی انسانیت کی خدمت اور علاج میں مصروف رہے۔ ان کے قلم نے حسب عادت ایک سفر نامہ لکھ ڈالا، اس میں سے ایک اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
صبح سویرے کا سہانا موسم ہے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ ہوا میں خنکی ہے۔ دریائے سوات کا صاف و شفاف نیلگوں پانی، پتھروں کا سینہ چیرتا، چنگھاڑتا اور جلترنگ کی آوازیں نکالتا جاری وساری ہے۔ آہستہ آہستہ پو پھٹ رہی ہے۔ سورج دور بادلوں کی اوٹ سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ابھی ابھی فجر کی نماز سے فارغ ہوئے ہیں ۔ دیر کی خوبصورت وادیوں میں حافظ محمد حذیفہ کی قیادت میں فجر کی نماز ادا کی ۔ پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کے لیے دُعا کی ۔ سوات اور دیر پاکستان کے حسین ترین خطے ہیں ۔ الحمداللہ ان علاقوں میں اب امن اور سکون ہے، آشتی ہے لوگ خوشی خوشی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اسلام آباد کی نسبت یہاں کا موسم بہت سہانا ہے۔ اچھی بھلی سردی محسوس ہو رہی ہے۔ پانی بھی یخ ٹھنڈا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ سردی والے موسم میں ہیں ۔حذیفہ کئی دنوں سے کہہ رہا تھا بابا میری چھٹیاں ختم ہو رہی ہیں ۔ چترال کا پروگرام بنا لیں۔ ابو بکر نعمان اور ڈیفنس سے عبیر اور ڈاکٹر زہرہ کا بھی اصرار تھا ۔ بچوں کے اصرار کے آگے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔ لاہور سے عبیر، یمنٰی اسمائ،ماہ نور، ڈاکٹر زہرہ، آمنہ اور رفیق کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اشفاق اور حذیفہ پہلے ہی اسلام آباد پہنچ گئے۔ سرگودھا سے بھابھی روبینہ ، نویرا، عائشہ نعمان اور ابو بکر کو لیا۔ گیارہ بجے کے قریب اسلام آباد پہنچے۔ G-6/4 کے میس میں تھوڑی دیر آرام اور ناشتہ وغیرہ کرنے میں کافی وقت صرف ہوگیا۔ ایک بجے کے قریب روانہ ہوئے۔ راستے میں جمعہ کی نماز ادا کی منزل کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ عمران خان کی حکومت کا بڑا کارنامہ صوابی سوات موٹروے کی تعمیرہے جس سے سوات کا فاصلہ اسلام آباد سے چار پانچ گھنٹے کی بجائے صرف ڈھائی گھنٹے کا رہ گیا ہے ۔ اگرچہ سوات موٹروے پہ ابھی کام جاری ہے۔ کئی جگہوں پر سڑکیں اور پل بن رہے ہیں پہاڑوں کو کاٹ کر سڑک بنائی گئی ہے۔اس کے علاوہ پہاڑوں کے بیچ میں ایک کلومیٹر لمبی خوبصورت سرنگ بھی بنائی گئی ہے۔ کلیکٹر کسٹم پشاور احسان علی شاہ دردِ دل رکھنے والے کو لیگ ہیں۔ انہوں نے چترال وزٹ کا پورا انتظام کیا ہوا تھا۔ سامان اور حفاظت کے لیے ایک گاڑی بھیجی جس میں ساری ادویات اور دوسرا سامان آگیا۔ چترال کے دو سپاہی بھی بھجوا دیے تاکہ راستے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔ صوابی سے تقریباََ ڈیڑھ گھنٹے میں چکدرہ پہنچ گئے موٹروے اس سے پہلے اسلام آباد سے مردان ، درگئی، سخا کوٹ، مالا کنڈ، بٹ خلیلہ، تھانہ ، چکدرہ کے سفر میں چار گھنٹے سے زیادہ لگتے تھے۔ بہت زیادہ رش بھی ہوتا تھا۔ جس سے یہ سفر بعض اوقات چھ گھنٹوں میں پورا ہوتا تھا۔ موٹروے واقعی ایک نعمت ہے جس سے راستے سکڑ جاتے ہیں اور سفر آسان ہو جاتا ہے اس کے ساتھ اشیائے ضرورت کی آمدورفت سے معیشت میں بھی بہتری آتی ہے۔ چار بجے کے قریب چکدرہ پہنچ گئے۔ وہاں سے سہیل خان کو ساتھ لیا۔ چکدرہ کے ایک ہوٹل میں لنچ کے لیے رکے۔ پٹھان کھانے میں ٹماٹر بہت استعمال کرتے ہیں ۔ لال مرچ اور نمک کم ڈالتے ہیں اسلیئے اکثر کھانوں کا رنگ ٹماٹروں کی وجہ سے سرخی مائل ہوتا ہے۔ آدھ گھنٹے میں چکن کڑاہی تیار ہوگئی۔ گرما گرم روٹیاں آگئیں۔ موٹروے کی کچی سڑکوں پر اوپر نیچے سفر کرتے ہوئے انجر پنجر ڈھیلا ہو چکا تھا اور سب کے معدے بھی خالی تھے۔ گرما گرم چکن کڑاھی آئی تو سب ٹوٹ پڑے۔ پانچ بجے کے قریب عصر کی نماز ادا کر کے روانہ ہوئے۔ چکدرہ سے ہوتے ہوئے لوئر دیر کے مختلف علاقوں سے گزرتے سانپ کی طرح بل کھاتی خوبصورت وادیوں میں رفیق، ظاہر گل اور صداقت نے گاڑیاں بڑی مہارت سے چلائیں۔ جونہی اپردیر کا علاقہ شروع ہوا ۔ ہوا میںخنکی بڑھ گئی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ مغرب کی نماز کے لیے ایک جگہ رکے ۔ پٹھان کی مہمان نوازی ضرب المثل ہے چائے کا پوچھا تو بتایا ہوٹل نہیں ہے۔ مسجد کے ساتھ چھوٹا ساسٹور تھا۔ اس سے کچھ اشیاء خریدیں اسٹور کے مالک نے کہا کہ میں چائے کے بغیر اب آپ کو جانے نہیں دوں گا اس نے فوراََ گھر سے کڑک چائے منگوا کر پلائی جس سے کچھ اوسان بحال ہوئے۔ پٹھان سے راستہ پوچھو تو وہ بتاتاہے کہ آپ منزل پہ پہنچنے والے ہیں بس پانچ منٹ میں دیر آجائے گا۔ پٹھان کا پانچ منٹ آدھے گھنٹہ کا ہوتا ہے۔ دیر شہر کی حدود میں داخل ہوئے۔ لیکن ہوٹل پہنچتے پہنچتے ایک گھنٹہ لگ گیا۔ جہاں پشاور کلیکٹریٹ کے انسپکٹر عبدالرحمن اور ساتھیوں نے استقبال کیا۔ صبح کے لیے پروگرام ترتیب دیا۔ ہوٹل والوں نے کھانا تیار کرنے میں رات گیارہ بجادیئے مگر ویجٹیبل رائس، سبزی اور دال اور گرماگرم روٹیاں کھا کر مزا آگیا۔12 بجے کے قریب بستروں پہ دراز ہوئے۔ تھکاوٹ کی وجہ سے سب گھوڑے بیچ کر سوگئے۔
صبح سویرے کا سہانا وقت ہے ہوا میں خنکی ہے آسمان پہ ابر چھایا ہوا ہے فضا میں سیبوںپھولوں اور ناشپاتی کے درختوں کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ ہر طرف سکوت کا عالم ہے مگر دریائے چترال میں پانی کے چلنے کی جلترنگ آواز سکوت کو توڑتی ہے۔ پرندے صبح صبح اپنی زبان میں اللہ کی حمد بیان کر رہے ہیں ۔ چترال کے گورنر ہائوس کے لان میں بیٹھے یہ سطریں رقم ہو رہی ہیں اونچے ،لمبے ،مٹیالے بھورے سر سبز اور تاریخی پہاڑ چار سو پھیلے ہوئے ہیں۔ پہاڑوں کے نیچے سبزہ بچھا ہوا ہے۔ سرسبز پہاڑوں اور جا بجا سبزے نے ماحول کو خوبصورت بنا دیا ہے۔ دور پہاڑوں کے درمیان سے سورج اپنا چہرہ دکھانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ 2014 میں چترال آئے تھے اور اس وقت سے لے کر اب تک اہلِ چترال و وادی کیلاش کے لوگوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ۔
صبح سویرے ہوٹل سے نکلے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے موسم کو خوشگوار بنا رکھا تھا۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت بچے ہاتھوں میں بستے تھامے سکولوں کی طرف رواں دواں تھے۔ عبدالرحمن نے اپر دیر کے دور دراز گائوں میں کیمپ کا انتظام کر رکھا تھا۔ دیر کی خوبصورت اور بل کھاتی وادیوں سے گزرتے اورسہانے مناظر سے لطف اندوز ہوتے آگے بڑھے۔ دیر کی خوبصورت اور سر سبز وادیاں خوبصورت پہاڑوں میں گھری ہوئی ہیں۔ پہاڑوں سے اوپر اور نیچے سبزے کی چادر بچھی ہوئی ہے راستے کچے بھی ہیں اور کہیں کہیں پکی سڑک بھی موجود ہے۔ ایک کلو میٹر چڑھائی آتی ہے اور پھر دو کلو میٹر اترائی آ جاتی ہے دیر کے مختلف خوبصورت علاقوں سے گزرتے عبدالرحمن کے گائوںپکا قلعہ کے سکول میں پہنچے۔ جہاں مریض پہلے سے موجود تھے یمنٰی زہرہ ، اسما، روبینہ، عائشہ، نویرہ نے خواتین میں کیمپ لگا لیا۔ زہرہ اور یمنٰی نے مریضوں کاچیک اپ شروع کر دیا۔ اشفاق، سہیل اور عبدالرحمن نے جھٹ سے ڈسپنسری سجا لی۔ پشتو سے نا آشنائی کی وجہ سے شروع میں تکلیف ضرور ہوئی لیکن جلد ہی پٹھان عورتوں سے آشنائی ہو گئی۔ پٹھان عورتوں میں گھل مل گئیں ۔ عورتوں میں گفٹس بھی بٹنے لگے راقم نے نعمان کے ساتھ باہر مریض دیکھنا شروع کئے نعمان نے پہلی دفعہ بڑے شوق اور محنت سے مریضوں کا چیک اپ شروع کیا سکول کے بچے اور اساتذہ بھی آگئے سالہا سال میں اس دور دراز علاقے میں پہلی دفعہ ا س طرح کا کیمپ لگاتھا۔ پکا قلعے کے علاوہ قریبی گائوں اشاری ،سری پال اور کانڈرو سے بھی مریض آنا شروع ہوگئے دوپہر تک کیمپ جاری رہا ۔700 سے زائد مریضوں کا چیک اپ اور علاج ہوا۔ علاقے کے غریب لوگ دوائیاں اور گفٹس لے کر بہت خوش ہوئے۔