برف پگھل گئی، طالبان، افغان وفود کے قطر میں 2 روزہ مذاکرات شروع
دوحہ (انٹرنیشنل ڈیسک) قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے افغان اور طالبان وفود کے دو روزہ مذاکرات شروع ہوگئے۔ خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغان اور طالبان نمائندوں کے اجلاس میں 70 افراد شامل ہیں جن کی ملاقات کے لیے لگژری ہوٹل کی سکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔ اشرف غنی کے ترجمان متین بیگ نے کہا امید ہے مذاکرات کا نتیجہ آئے گا۔ کانفرنس روم میں داخل ہونے سے قبل تمام افراد کو اپنے موبائل فون انتظامیہ کے حوالے کرنا پڑے۔ خیال رہے کہ واشنگٹن واضح کر چکا ہے کہ وہ ستمبر میں افغانستان کے صدارتی انتخاب سے قبل طالبان کے ساتھ سیاسی معاہدہ کرنا چاہتا ہے جس کے بعد غیر ملکی افواج بھی واپس لوٹ جائیں گی۔ مذاکرات کے حوالے سے جرمنی کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور پاکستان مارکس پوٹزل کا کہنا تھا کہ آج یہاں کچھ روشن خیال ذہن موجود ہیں جو افغان معاشرے کے ایک حصے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ’آپ سب کے پاس پرتشدد کشیدگی کو ایک پر امن مباحثے میں بدلنے کے طریقے تلاش کرنے کا ایک منفرد موقع اور ذمہ داری ہے'۔ طالبان کے نمائندے عباس استانکزئی نے جب کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے کانفرنس روم میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اس دوران سکیورٹی گارڈ سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ عباس استانکزئی کا کہنا تھا کہ ’ہم مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے جارہے ہیں لیکن وہ ہمیں جانے نہیں دے رہے جس پر ایک افسر نے کہا کہ ’ہم آپ سے مذاق نہیں کر رہے ہیں اور ہم پر چلّانا بند کریں'۔ تاہم عباس استانکزئی، طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان سہیل شاہین سمیت وفد کے ہمرا مذاکرات سے قبل کانفرنس روم میں اپنی نشستوں پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ قطری وزات خارجہ کے نمائندہ برائے انسداد دہشت گردی مطلق القحطانی نے کہا کہ ہم تمام افغان بھائیوں اور بہنوں کی دوحہ میں ملاقات پر بہت خوش ہیں۔ افغان اور طالبان وفود کو ثالثوں کی موجودگی میں مذاکرات کے لیے تنہا چھوڑنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم افغانستان کے مستقبل کی راہ کا تعین کرناچاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ مذاکرات امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کے 6 دن بعد ہورہے ہیں جن میں مذکورہ کانفرنس کی وجہ سے 2 دن کا وقفہ دیا گیا ہے تھا جو دو روز بعد دوبارہ شروع ہوں گے۔ سابق صدر حامد کرزئی کی جانب سے طالبان کے ساتھ بات چیت کیلئے تشکیل دی گئی اعلیٰ امن کونسل کی رکن اصیلہ وردک نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہر کوئی جنگ بندی پر غور کررہا ہے۔ اصیلہ وردک نے مزید کہا کہ عباس استانکزئی نے ’خواتین کے کردار، معاشی ترقی اور اقلیتوں کے کردار پر طالبان کے موقف سے متعلق بات چیت کی‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغان ثقافت اور اسلامی اقدار کی بنیاد پر خواتین کو کام کرنے، سکول جانے اور پڑھنے کی اجازت دیں گے۔ قطر میں موجود طالبان کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس پیشرفت سے خوش ہیں اور انہیں اب تک کسی قسم کی رکاوٹوں کا سامنا نہیں ہوا۔ ان مذاکرات میں سیاسی رہنماؤں اور دیگر افغان سٹیک ہولڈرز شریک ہیں جن میں کم از کم 6 خواتین بھی شامل ہیں۔ امریکہ اس دو روزہ اجلاس میں براہ راست شرکت نہیں کررہا لیکن زلمے خلیل زاد نے کانفرنس روم کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ’ اس کا مقصد ان کے درمیان امن کی شرائط پر متفق ہونے کے لیے مذاکرات کرنا ہے۔