ڈاکٹر امجد ثاقب ۔ زین اشرف مغل
ڈاکٹر امجد ثاقب نے کالم نگار کو کمال مہربانی سے اپنی کتاب ’’مولو مصلی‘‘ اسی کی تقریب رونمائی کے دعوت نامہ سمیت بھجوائی ۔ تقریب میں شمولیت سے محروم رہ جانے والا کالم نگار اس کالم سے قضا کے ثواب کا حقدار ہو رہا ہے ۔ آج کا اہم سوال یہی ہے کہ اس ملک کے ’’مولو مصلی‘‘ جن کے نام کاغذات مال کے خانہ ملکیت میں کہیں درج نہیں ملتے ان کے پاکستان کی زمین پر کیا حقوق ہیں ؟ ان کیلئے زندگی بسر کرنے کے واسطے چند مرلے اور دفن ہونے کیلئے چند فٹ زمین ہے بھی یا نہیں ؟پاکستان کی کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت اس سوال کا جواب نہیں دے رہی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ڈی ایم جی گروپ کی افسری چھوڑ کر خدمت خلق کی درویشی میں آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے 2001ء میں چند دوستوں کیساتھ ملکر ’’اخوت‘‘ کے نام سے ایک فلاحی ادارے کی بنیاد رکھی ۔ ان چند دوستوں میں ہمارے دوست پروفیسر ہمایوں احسان بھی شامل تھے ۔ یہ ادارہ غریب ، نادار لوگوں کو کاروبار کیلئے بلا سود قرضہ دیتا ہے ۔’’ اخوت‘‘ تبدیلی ہی کا ایک نام ہے ۔ یہ فلاح بذریعہ بلا سود قرضہ ہے ۔ یہ قرضہ روزگار کیلئے دیا جاتا ہے ۔ یہ خواب عمران خان نے نہیں ڈاکٹر امجد ثاقب نے دیکھا ہے ۔ فلاح کسی ریاست کا بنیادی مقصد ہے ۔ یہی معاہدہ عمرانی کی اساس ہے ۔لیکن ریاست کے مقابلے میں محدود وسائل کے باعث ایسے رفاعی اداروں کی کارکردگی شاعرانہ مبالغہ آرائی میں یوں کم کہی جا سکتی ہے۔
قیامت کی گرمی میں کوثر کے چھینٹے
جوانی کے رخ پہ حیاء کا پسینہ
پھر بھی 22 کروڑ آبادی والے ملک میں 29لاکھ گھرانوں کو33ارب روپے غیر سودی قرضے مہیا کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں۔ یہ ’’اخوت ‘‘ کی آج تک کی کارکردگی ہے ۔ ان قرضوں کی واپسی 99.88ہے ۔ واپسی کی یہ شرح ثابت کرتی ہے کہ ہمارے عام عوام ‘خواص کی نسبت بہت دیانتدار ہیں۔ پھر جب یہ لوگ اپنے پائوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں تو ’’اخوت‘‘ کے ڈونر بن جاتے ہیں۔ سود کے بارے میں میرے حضورؐ نے فرمایا: سود کی ستر اقسام ہیں۔ سب سے ادنیٰ قسم ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے غلط تعلقات قائم کرے۔ بندہ یہ بھی سوچتا ہے کہ شاید میرے حضورؐ نے ایسا نہ فرمایا ہو۔ خدا کالم نگارکو معاف فرمائے ۔ اس کی ناقص عقل میں ایسے پر اگندہ خیالات آتے رہے ۔اک روز مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی کی کتاب ’’مجمع البحرین‘‘ کالم نگار کے ہاتھ آگئی۔ یہ شیعہ سنی متفق الیہ روایات کا مجموعہ ہے ۔ اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور کالم نگار نے پہلے سود کا باب نکالا ۔ پھر وہ اک جہان حیرت میں ڈوب گیا کہ شیعہ بھی اس حدیث پاک سے متفق ہیں۔
آج ہمارا ملک جس طرح ایل ایم ایف کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اس سے اس برائی کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے ۔’’ اخوت‘‘ پوری دنیا میں بلا سود قرضوں کی سب سے بڑی آرگنائزیشن ہے ۔ بنگلہ دیش کے گرامین بینک (گائوں کا بینک) نے اپنے وطن میں غریب دیہاتیوں کو چھوٹے چھوٹے قرضے فراہم کر کے انہیں باعزت روزگار ڈھونڈنے میں مدد دی۔ لیکن یہ بینک بلا سود قرضے فراہم نہیں کرتا۔ اس طرح اگر گرامین بینک کی جدو جہد کو غربت کیخلاف جنگ کا نام دیا جائے تو اس میدان میں ’’اخوت‘‘کی کاوش جہاد کہلائے گی۔ کیونکہ ’’اخوت‘‘کے قرضے بلا سود ہیں۔ان بلا سود قرضوں میں میرے آقاؐ کی خوشبو رچی بسی ہے ۔ خیرات غربت کا علاج نہیں۔ غربت کا علاج قرض حسنہ ہے تاکہ غریب آدمی کسی روزگار کے وسیلے سے اپنی غربت دور کر سکے ۔ آخر میں کالم نگار فخر سے لکھ رہا ہے کہ گوجرانوالہ بھی ایک اور ’’ ڈاکٹر امجد ثاقب ‘‘ سے خالی نہیں۔ پھر کسی بھی درخت کو بڑھتے ، گھنا سایہ دار بنتے ایک وقت تو چاہئے۔ یہ امریکہ کی یونیورسٹی آف میامی سے فارغ التحصیل زین اشرف مغل ہیں۔ صنعتکار گھرانے سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کی بلا سود قرضہ فراہم کرنیوالی تنظیم کا نام سیڈ آئوٹ Seed Outہے ۔ 640 گھرانوں کو یہ ادارہ پانچ کروڑ روپیہ قرض حسنہ دے چکا ہے ۔ ان کی واپسی کی شرح بھی تقریباً سو فیصد ہے۔ صنعتکار گھرانے سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان زین اشرف کی ذاتی فیکٹری میں ڈیڑھ سو کے قریب مزدور کام کرتے ہیں۔ تمام مزدوروں کے بچوں کی اسکول کی فیس ، کتابیں ، یونیفارم اور پک ڈراپ کے اخراجات فیکٹری کے ذمے ہیں۔تمام بچے ایجوکیٹر اسکول میں پڑھتے ہیں۔ فیکٹری کے تمام مزدور اس فیکٹری کے نفع میں حصہ دار ہیں۔ فیکٹری بے پناہ نفع کماتی ہے ۔ فیکٹری کا چوکیدار بھی اس امر سے ہرد م آگاہ رہتا ہے کہ فیکٹری کتنے منافع میں جا رہی ہے ۔ کالم نگار کو نوجوان زین اشرف بتا رہے تھے کہ ’’اخوت‘‘کوبہت حد تک حکومت کی امداد و تائید حاصل ہے۔ جبکہ ’’ سیڈ آئوٹ‘‘ کی طرف سے دیئے گئے تمام قرضے عام آدمیوں کی طرف سے ہیں۔ کالم نگار نے کہا ۔پچھلے دنوں آپ کو بھی پی ٹی آئی کی یوتھ کونسل کا ممبر بنا لیا گیا ہے ۔ دیکھئے اب سرکار دربار کی آپ پر اور آپ کے ادارے پر کب نظر ٹھہرتی ہے ۔ گوجرانوالہ کے نواحی گائوں ٹھٹھہ داد سے جناب زبیر چیمہ نے اس عید پر اپنے گائوں کے دس بے گھروں کو پانچ مرلے کا ایک ایک گھر اور 25 بیروزگاروں کو ایک ایک رکشہ خیرات کیا ہے۔ کبھی ان کی زیارت ہوئی تو عرض کروں گا کہ اگر آپ ’’سیڈ آئوٹ ‘‘سے تعاون کریں تو زیادہ اچھا ہوگا۔ ایک صحتمند ، با صلاحیت شخص کیلئے قرض حسنہ ، خیرات سے کہیں زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے ۔ قرض کی واپسی کی ذمہ داری سے محنت کی عادت ، عزت نفس کا احساس اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ یہی عظمت انسانی ہے ۔