• news

جج ارشد ملک احتساب عدالت سے فارغ

اسلام آباد (وقائع نگار+ خصوصی رپورٹر) جج ویڈیو سکینڈل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت نمبر 2کے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روکتے ہوئے ان کی خدمات وزارت قانون کے سپرد کردی ہیں۔ ترجمان اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ روز جاری ہونے والے اپنے اعلامیہ میں بتایا کہ احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ارشد ملک کو ہٹانے کے لیے وزارت قانون و انصاف کو خط لکھ دیا ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کی ہدایت پر رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت قانون کو سفارش کی ہے جج ارشد ملک پر چونکہ ایک ویڈیو میں متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں لہذا ان کو احتساب عدالت کے جج کے عہدے سے ہٹا کر انہیں لاہور ہائی کورٹ کے پیرنٹ ڈیپارٹمنٹ میں واپس بھیج دیا جائے۔ ترجمان اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق جج ارشد ملک نے اتوار کو جاری کی گئی پریس ریلیز بھی اپنے خط سے منسلک کی تھی۔ دوسری طرف وفاقی وزیر قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ وزارت قانون نے احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کو مبینہ ویڈیو اور پریس ریلیز کی بناء پر مزید کام کرنے سے روک دیا ہے، جبکہ ان کی خدمات ان کے اپنے محکمہ لاہور ہائی کورٹ کو واپس کی جائیں گی، نیب کے قانون کے مطابق اگر جج کو دھمکی یا سفارش کی پیشکش کی جائے تو اس کی سزا 10 سال ہے، جج کو کام سے روکنے پر ان کے فیصلوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی زیر سماعت اپیل پر فیصلہ کرنا ہے، کسی کو عدالت پر دبائو ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جاتی امراء میں نواز شریف سے ارشد ملک کی ملاقات کرائی گئی، عمرے پر حسین نواز جج ارشد ملک کو ملے اور 50 کروڑ کی پیشکش کی، وہ لندن میں اپنے فلیٹس کی منی ٹریل دیں اور بری ہو جائیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزارت قانون و انصاف کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا خط موصول ہوا ہے، خط میں جج ارشد ملک کا بیان حلفی اور ان کی پریس ریلیز کی کاپی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ انہوں نے خوف اور لالچ کے بغیر فیصلہ دیا، انہیں رشوت کی پیشکش بھی کی گئی تھی، بیان حلفی کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ جج صاحب نے فیصلہ پر میرٹ کیا۔ وزیراعظم اور موجودہ حکومت آئین، قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑی ہے، عدالتوں کو دبائو میں لانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کی خدمات واپس کرنے کے حوالہ سے مراسلہ بھیجا تھا جس کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ وزارت قانون نے محمد ارشد ملک کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کر دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ کیس موجودہ حکومت نے نہیں بنایا۔ اگر جج پر دبائو ہوتا تو دونوں ریفرنسز میں سزا دیتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک قانونی مسئلہ ہے، دوسری ویڈیو بھی پیش کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ سیکشن 31 اے کے تحت ججز کو دبائو میں لانے پر سزا موجود ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ ویڈیو جاری ہونے اور پریس ریلیز کے بعد وضاحت کرنا ضروری تھی، بیان حلفی میں جو چیز بیان کی گئی وہ صرف مافیا کا کام ہو سکتا ہے، مارگلہ روڈ پر موجود گھر سے سلسلہ شروع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی تعیناتی کو دیکھنا ہو گا۔ رشوت دینے والے منی لانڈرنگ کے ماہر ہیں، یہ کیس ملزم کی استدعا پر ہی ارشد ملک کے پاس گیا تھا، پہلے یہ کیس جج محمد بشیر کی عدالت میں تھا، جب ملزمان کے حق میں فیصلہ نہ آیا تو رابطے کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ناصر جنجوعہ سمیت کچھ لوگوں نے جج ارشد ملک سے رابطے شروع کئے، بیان حلفی کے مطابق ملتان کی 16 سال قبل کی ویڈیو دکھائی گئی، میاں نواز شریف کے پاس جاتی امراء ناصر بٹ جج ارشد ملک کو لے کر گئے، بیان حلفی میں لکھا گیا کہ میاں نواز شریف مطمئن نہ ہوئے تو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ عمرے پر حسین نواز جج ارشد ملک کو ملے اور 50 کروڑ اور بیرون ملک رہائش کی پیشکش کی۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری میں پوری سازش کو دیکھا جائے گا، ابھی بھی عدالتی نظام پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جج کی ویڈیو دکھانے کے دوران جو لوگ پریس کانفرنس میں موجود تھے ان کے خلاف کارروائی کو بھی دیکھیں گے، معاملہ پاناماسے شروع ہوا اور اس کا جواب صرف منی ٹریل ہے، اس کیس میں حتمی فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کرے گی۔
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی انکوائری کیلئے دائر درخواست ایک ہی دن بعد سماعت کے لئے مقررکردی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ 16 جولائی کو سماعت کرے گا۔ عدالت عظمی میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت لیک شدہ ویڈیو کی انکوائری کا حکم دے اور عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے کیلئے ملوث افراد کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی کی جائے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ انکوائری سے عدلیہ کے وقار، عزت اور آزادی پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب مل جائے گاکیونکہ ایسا لگتا ہے ویڈیو لیک ہونے سے عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھایا گیا ہے،عدالت ہر صورت اس معاملے کی انکوائری کرائے،آئینی درخواست اشتیاق احمد مرزا نے ایڈوکیٹ چوہدری منیر صادق کے ذریعے دائر کررکھی ہے جس میں وفاقی حکومت، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، مسلم لیگ ن کی نائب صدرمریم صفدر ،سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور راجہ ظفر الحق ویڈیو کے مرکزی کردار ناصر بٹ اور پیمرا کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ6 جولائی کو مریم صفدر اور دیگرنے پریس کانفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک اور ناصر بٹ کے درمیان بات چیت کی ویڈیو چلائی گئی۔ اس ویڈیو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدلیہ آزادی سے کام نہیں کرتی اور بلیک میل ہوتی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ6 جولائی کی پریس کانفرنس کا ریکارڈ پیمرا سے طلب کیا جائے۔ جج ارشد ملک نے جو پریس ریلیز میں رشوت کی آفر کرنے کی بات کی ہے وہ سنجیدہ نوعیت کی ہے اورمریم نواز نے جو الزامات پریس کانفرنس کے دوران لگائے ہیں وہ توہین عدالت ہے اس لئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ عدلیہ کی آزادی کے لئے اقدامات کرے۔
اسلام آباد (چوہدری شاہد اجمل) اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2کے جج محمد ارشد ملک کو قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کے سیکشن 5اے کی روشنی میں ہٹایا گیا، اسی قانون کے مطابق وزارت قانون ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی سے خصوصی عدالتوں سمیت احتساب عدالتوں کے لیے ججز کی تقرری کرتی ہے، اس سیکشن کی روشنی میں جج ارشد ملک کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ارشد ملک کی بطور جج احتساب عدالت تقرری وزارت قانون کی طرف سے این اے او 1999کے تحت کی گئی تھی، وزارت قانون کے ذرائع کا بھی یہی کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 203کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ ہی ماتحت عدالتوں کو دیکھتی ہے، احتساب عدالت سمیت خصوصی عدالتیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے علاقائی دائرہ کار میں آتی ہیں، لہذا چیف جسٹس ہائی کورٹ اس معاملے میں کوئی کارروائی کرنے کے مجاذ ہیں۔اسی لیے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے جج کو ہٹانے کی سفارش کی۔جج ارشد ملک کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس ،جسٹس عامر فاروق سے جج ارشد ملک کی ایک ہفتے میں دو مرتبہ ملاقاتیں ہوئیں، اس سے قبل 9جولائی کو جسٹس عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی تھی اور مبینہ طور پر تمام صورتحال اور اس تنازع پر احتساب عدالت کے جج کے جواب کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔اس تمام مشاورت اورجائزہ کے بعد جسٹس عامر فاروق نے رجسٹرار آفس کو جج کو ان کے عہدے سے ہٹانے سے متعلق انتظامی احکامات جاری کئے۔ خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے24دسمبر 2018 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کر دیا تھا۔

ای پیپر-دی نیشن