نواز شریف سے ملاقات ہوئی، حسین نے 50 کروڑ، فیملی سمیت باہر بھجوانے کی آفر دی: ارشد ملک
اسلام آباد (وقار عباسی /وقائع نگار ) اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی جانب سے العزیزیہ ہل میٹل اور فلیگ شپ ریفرنس مقدمات میں دئیے گئے فیصلوں پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جاری کی گئی متنازعہ آڈیو ویڈیو پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائے گئے بیان حلفی میں کہا ہے کہ میری اسلام آباد احتساب عدالت میں بطور جج تقرری فروری 2018میں ہوئی تو اس کے فوری بعد مجھ سے دو افراد جن میں ایک خاتون مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے ملاقات کی ملاقات کے دوران ناصر جنجوعہ نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ ان کی تجویز (سفارش) پر مسلم لیگ (ن) کی ایک انتہائی بااثر شخصیت نے (ن) لیگ کی حکومت کے دوران آپ کی بطور احتساب عدالت جج تقرری کروائی ہے۔ میں اس شخص کے دعوے پر میں نے کہا کہ اگر آپ نے میری تقرری کروائی ہے تو کم ازکم یہ سفارش کرتے ہوئے مجھ سے تو پوچھ لیا ہوتا میں اس پوزیشن کی بجائے کسی ڈسٹرکٹ میں سیشن جج کے طورپر کام کرنے کا خواہشمند ہوں اگست 2018میں فلیگ شپ ریفرنس اور ہل میٹل کے ریفرنسز میری ٹرائل کورٹ میں منتقل کیے گئے جب ان دونوں ریفرنسز کی سماعت چل رہی تھی مجھے کئی مواقعوں پر میاں نوازشریف کے سپورٹرز اور ایسوسی ایٹس کی جانب سے اپروچ کیا گیا جنہوں نے مجھے پیشکشیں بھی کیں اور اور دھمکیاں بھی دی گئیں کہ میں ان مقدمات میں ملزمان کو رعایت دوں ۔ ایک ایسی ہی سماجی ملاقات کے دوران میں ناصر جنجوعہ اور مہرجیلانی شریک تھے ناصر جنجوعہ مجھے ایک طرف لے گئے اور ہل میٹل اور فلیگ شپ ریفرنسوں میں میاں نوازشریف کی بریت کے فیصلے دینے کی استدعا کی ناصر جنجوعہ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ہی نوازشریف کو مجھے (جج) احتساب عدالت میں بطور جج لگوانے کی سفارش کی تھی اگر ان ریفرنسوں میں نوازشریف کی بریت کے فیصلے نہ آئے تو ذاتی طورپر یہ ان کے حق میں اچھا نہیں ہو گا اس وقت میں نے انہیں جواب دیا کہ ’’اللہ بہترکرے گا انصاف اللہ کا منصب ہے اور اللہ بے انصافی نہیں کرتا ‘‘جب ہل میٹل اور فلیگ شپ میں دلائل کا مرحلہ جاری تھا اس وقت ناصر جنجوعہ نے پھر مجھ سے رابطہ کیا اور میاں نواز شریف کے حوالے ایک مالی پیشکش کی اور کہا کہ مذکورہ دونوں ریفرنسوں میں میاں صاحب کو بری کرنے کے عوض میرا ہردلی مطالبہ پورا کردیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میری پسند کے کسی بھی ملک میں میرے نامزد آدمی کے زریعے مجھے ادائیگی کی جاسکتی ہے میں نے ناصر جنجوعہ اور مہرجیلانی کو جواب دیا کہ میں چھ مرلے کے گھر میں رہا ہوں لہذا دونوں ریفرنسوں میں اپنے حلف کے مطابق فیصلہ دوں گا۔ اس موقع پر ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ مجھے فوری طورپر 100ملین یورو دے سکتے ہیں جن میں سے 20ملین یورو ان کی پارکنگ میں کھڑی ڈگی میں موجود ہے۔ رشوت کی اس پیشکش کے بعد ناصر بٹ کی طرف سے مجھے جسمانی طور پر نقصان پہنچانے اور حراساں کرنے کی دھمکی ملی۔ فیصلہ سنانے کے بعد اس معاملے پر کچھ وقت خاموشی رہی جس کے بعد بلیک ملینگ اور دھمکیوں کی جگہ رشوت کی آفرز نے لے لی اس کے بعد رواں سال فروری کے وسط میں میں خرم یوسف اورناصر بٹ سے ملا دوران گفتگو ناصر بٹ نے مجھ سے یہ استفسار کیا کہ کیا ناصر جنجوعہ نے مجھے (جج )کو ملتان والی ویڈیو دکھائی۔ ناصر بٹ نے مجھ سے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ یہ ویڈیو چند روز میں آپ کو دکھا دی جائے گی اس کے چند روز بعد میاں طارق نے اپنے بیٹے کے ہمراہ مجھ سے ملاقات کی جن سے 2002-03کے دوران ملتان میں بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تعیناتی کے دوران میری شناسائی تھی میاں طارق نے مجھے خفیہ طورپر ریکارڈ کی گئی میری ایک غیر اخلاقی ویڈیو دکھاتے ہوئے کہا کہ اس ویڈ یو میں جوکچھ ہورہاہے وہ آپ ہی کررہے ہیں اس سے مجھے شدید صدمہ ہوا ویڈیودکھانے کے بعد میاں طارق اور ناصر بٹ نے مجھ پر دباو ڈالنا اور بلیک میل کرنا شروع کردیا کہ میں میاں نوازشریف کی کچھ مدد کروں ناصر جنجوعہ نے تجویزدی کہ چونکہ ہل میٹل کیس کا فیصلہ پہلے ہی آچکا ہے اس لیے میں نواز کی تسلی اور اطمینان کے لیے ان کے نام آڈیو پیغام ریکارڈ رکروادوں اس پیغام میں مجھے یہ کہنا ہے کہ میں نے بااثر حلقوں کے شدید دباو کے باعث میاں نوازشریف کے خلاف فیصلہ صادر کیا ہے حالانکہ ان کے خلاف الزام کے ضمن میں کوئی شواہد موجود نہیں تھے اس موقع پر ناصر جنجوعہ نے مجھے مزید یقین دلایاکہ یہ ریکارڈ ہونیوالا سوتی پیغام صرف میاں نوازشریف کی تسلی اور اطمینان کے لیے ہوگا اور ناصر جنجوعہ خود اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جب میاں نوازشریف یہ پیغام سن لیں تو اسے تلف کردیا جائے گا میں نے انکار کیا لیکن انہوں نے مجھے مذکورہ بالا جملے دہرانے پر اپنا اصرار جاری رکھا اس کے کچھ عرصے بعد ناصر بٹ دوبارہ میرے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ میرے (جج) کے عدم تعاون کے باوجود ناصر جنجوعہ نے میری (جج) کی آواز ریکارڈ کرلی ہے میاں صاحب یہ آڈیو پیغام سن چکے ہیں لیکن وہ اس سے مطمئن نہیں ہوئے چنانچہ مجھ سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ میں ان کے ساتھ جاتی امراء جائوں اور بالمشافہ نوازشریف کے سامنے یہ بیان دہراوں اس پر مجھے دھمکانے کے لیے انہوں نے ملتان والی ویڈیو دوبارہ دکھا ئی جس کے بعد غالباًمیں 6-4-2018کو ناصر بٹ کے ساتھ جاتی امراء گیا جہاں میاں نوازشریف نے ذاتی طورپر پر میرا خیر مقدم کیا اس ملاقات کے دوران ناصر بٹ میاں صاحب کے سامنے دعوی کرتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا کہ میں نے (جج) ناصر بٹ کے سامنے یہ تسلیم کیا ہے کہ ہل میٹل کیس میں عدلیہ اور فوج کے دباو پر فیصلہ دیا ہے تاہم جب میں خود بولا تونرمی سے میاں نواز شریف کو یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ ہل میٹل کیس میں فیصلہ میرٹ پر کیا گیا ہے اورنیز اس مقدمے میں ان کے خلاف استغاثہ نے ٹھوس شواہد پیش کیے جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں مطلوبہ شواہد نہ ہونے کی بنیاد پر انہیں بری کیا گیا ہے ظاہر بات ہے کہ میاں نوازشریف میرے جواب سے ناخوش ہو ئے انہوں نے ہم دونوں کو رخصت کیا اور یو ں یہ ملاقات اختتام کو پہنچی جاتی امراء سے واپسی پر ناصر بٹ واضح طورپر مایوس اور پریشان تھا اس نے ناراضگی سے الزام عائد کیا کہ میں نے اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کی ہے اس موقع پر ناصر بٹ نے مجھے کہا کہ ہل میٹل ریفرنس کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تیاری کے لیے ان سے تعاون کروں۔ اس ضمن میں پہلے ہی وکلاء کی ایک ٹیم کی خدمات حاصل کی جاچکی ہیں جنہوں نے اپیل کا مسودہ تیار کرلیا وہ محض یہ چاہتے ہیںکہ میں اس مسودہ اپیل پر نظر ثانی کرکہ اپنی رائے دے دوں اور میرا یہ اقدام میاں نوازشریف کے سامنے ناصربٹ کی پوزیشن کو کلیر کردے گا میں نے بلیک میلنگ کی کوششوں کے پیش نظر اس کا یہ مطالبہ تسلیم کرلیا ۔جاتی امراء سے واپسی کے چند روز بعد ناصر بٹ مسودہ اپیل لے کر میرے پاس آیا جس کا میں نے ہچکچاہٹ آمیز طور پر جائزہ لیا اور اس کے مطالبے کے مطابق اپنی رائے دی ۔6-7-2019کو مریم نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر قائدین کی اس فیصلے کے بارے میں ان کی پریس کانفرنس سن کر کہ وہ ملاقات جس کے دوران میں نے مسودہ اپیل پر رائے دی تھی اسے خفیہ طورپر ریکارڈ کرلیا گیا اس کی ایڈیٹنگ کی گئی اور ماہرانہ انداز میں میری آڈیواور ویڈیو پریس کانفرنس میں چلایاگیا میں 28-5-2019کو اپنے خاندان کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گیا 1-6-2019کو نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد ناصر بٹ مجھے مسجد نبوی کے باہر ملا اور کہا کہ میں اس کے ساتھ چل کر حسین نواز کے ساتھ مل لوں میری مزاحمت پر اس نے پھر مجھے دھمکی دی کہ اس کی ایک ٹیلی فون کال پر مجھے پاکستان میں مسائل اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا دوران ملاقات حسین نواز کارویہ اور لب و لہجہ جارحانہ اور اشتعال انگیز تھا اس نے مجھے پانچ سو ملین روپے (پچاس کروڑ) دینے مجھے اور میرے اہل خانہ کو برطانیہ ، کینیڈا یا اپنی مرضی کے کسی بھی ملک میں منتقل کرنے کی پیشکش کی جہاں میرے بچوں کے لیے ملازمتیں اور منافع بخش کاروبار دستیاب ہو گا حسین نواز نے کہا کہ اس کے عوض مجھے محض یہ کرنا ہے کہ میں یہ کہتے ہوئے اس بنیاد پر اپنی نوکری سے مستعفی ہوجائوں چونکہ میاں نوازشریف کو شواہد کے بغیر سز اسنائی گی ہے اس لیے ضمیر کی خلش لیے میں نوکری جاری نہیں رکھ سکتا اس نے کہا کہ اس مضمون کے استفعے پر دستخط کرنے کے بعد وہ میرے ہرمعاملے کی خود دیکھ بھال کریں گے ان کا یہ بھی دعوی ٰ تھا کہ صرف وہی مجھے بلیک میلنگ سے بچا سکتے ہیں انہوں نے مجھ پر فوری جواب دینے کے لیے دباو ڈالا میں نے حسین نواز کی یہ پیشکش مسترد کردی میں 8-6-2019کو پاکستان واپس آیا ناصر بٹ نے مجھے متعدد ٹیلی فون کالز کرکہ مدینہ پاک میں حسین نوا ز کی گئی پیشکش کو قبول کرنے پر اصرار کیا اور ساتھ ہی یہ پیشکش قبول نہ کرنے کی صورت میں نتائج بھگتنے کی دھمکی بھی دی اسی پیغام کے ساتھ ناصر بٹ نے خرم یوسف کے زریعے مجھ سے رابطہ کیا لیکن اس بار بھی میرا جواب نفی میں تھا اس کے بعد میں نے ناصر بٹ کی ٹیلی فون کالز سننا ترک کردیں واضح طورپر یہ محسوس کرتے ہوئے کہ میں ان کے غیر قانونی مطالبات تسلیم نہیں کررہا 6-7-2019کو مذکورہ پریس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں مجھ پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے اور دکھائے گئے مواد کو مجھ سے منسوب کیا گیا۔وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے بہترین حفاظت کرنے والا اور سب سے بڑا معاف کرنے والا ہے ۔