• news

چیف سلیکٹر انضمام الحق نے عہدے میں توسیع لینے سے معذرت کرلی

لاہور(سپورٹس رپورٹر) قومی چیف سلیکٹر انضمام الحق نے پی سی بی کی جانب سے عہدے میں مزید توسیع لینے سے معذرت کر لی ہے، بورڈ کوئی نئی ذمہ داریاں سونپے گا تو اس کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کروں گا۔ ورلڈ کپ 2019ء کے فائنل کا فیصلہ باونڈریز پر نہیں ہونا چاہیے تھا آئی سی سی کو اس پر ضرور کوئی لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ قومی ٹیم کے کپتان کا تقرر چیئرمین پی سی بی کا اختیار ہے، جو بھی کپتان ہو اسے کم از کم لمبے عرصے کے لیے کپتان مقرر کیا جائے۔ سیریز ٹو سیریز کپتان کے تقرر کے حق میں نہیں ہوں۔ ٹیمیں موجود نوجوان کھلاڑی دس سے پندرہ سال تک ملک کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ورلڈ کپ اور دورہ انگلینڈ کے بعد پی سی بی بھی ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی تین سالہ کارکردگی سے پوری طرح مطمئن ہوں۔ محمد حفیظ سمیت سینئر کھلاڑیوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے مجھے کوئی اختیار نہیں کہ میں ان کے بارے میں کوئی رائے دوں۔ چیئرمین پی سی بی احسان مانی اور ایم ڈی وسیم خان کو اپنے فیصلے کے متعلق آگاہ کر دیا ہے۔ بورڈ سربراہ سمیت ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں کا مشکور ہوں جنہوں نے میرے فیصلوں کو آنر دی۔ پندرہ سے سولہ رکنی سکواڈ کا انتخاب کرنا ہمارے اختیار میں ہوتا ہے جس میں ہم کوچ اور کپتان سے مشاورت کرتے ہیں جبکہ گیارہ رکنی سکواڈ کے انتخاب کا فیصلہ کوچ اور کپتان کا ہوتا ہے۔ اسی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ گیارہ رکنی سکواڈ بھی میری مرضی سے بنتا تھا۔ کرکٹ میرا اوڑھنا بچھونا ہے لہذا سلیکشن کمیٹی کی بجائے کسی بھی دوسری نوکری کے لیے میری خدمات حاضر ہیں لیکن شرط یہ ہوگی کہ وہ جاب مجھے سوٹ کرے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے تاحال کوئی آفر نہیں ہوئی ہے۔ بطور کرکٹر میری نظر میں پاکستان ٹیم کی ورلڈ کپ میں کارکردگی اچھی رہی ہے اسکی ایک مثال یہ ہے کہ ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیموں کو پاکستان ٹیم نے شکست دی۔ اگر قسمت ساتھ دیتی تو پاکستان ٹیم ورلڈ کپ بھی جیت سکتی تھی۔ بدقسمتی تھی کہ ہم پہلا میچ ہی ہار گئے۔ ورلڈ کپ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا وکٹیں خراب سے خراب ہوتی چلی گئیں۔ شعیب ملک کے بارے میں انضمام کا کہنا تھا کہ وہ تین سال سے ہماری ٹیم کا حصہ تھے اور کئی میچز میں اچھی کارکردگی سے پاکستان ٹیم کو کامیابی بھی دلائی اسی پرفارمنس پر انہیں ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ مئی 2017 میں مصباح الحق اور یونس خان جیسے نامور کھلاڑیوں کے جانے کے بعد سے پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ اس سفر میں نوجوان کھلاڑیوں کے تجربے اور قابلیت کے اضافے سے اب قومی کرکٹ ٹیم کا مقصد بہتر نتائج حاصل کرنا ہے۔ تمام کھلاڑی اب تینوں طرز کی کرکٹ میں کامیابیاں سمیٹنے کیلئے مکمل تیار ہوچکے ہیں۔ انضمام الحق کے دور میں کئی نوجوان کھلاڑیوں نے اپنا انٹرنیشنل ڈیبیو کیا۔ جن میں فخر زمان، فہیم اشرف، حسن علی، امام الحق، محمد عباس، شاداب خان، شاہین شاہ آفریدی اور عثمان شنواری کے نام شامل ہیں تاہم قابل ذکر نام بابر اعظم اب تینوں فارمیٹ میں قومی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کے انٹرنیشنل کرکٹ میں نام بنانے پر مجھے خوشی ہے۔ میرا یقین ہے کہ ان تمام کھلاڑیوں میں قومی کرکٹ ٹیم کو مزید بلندیوں تک پہنچانے کی قابلیت موجود ہے، میں مستقبل میں بھی ان کھلاڑیوں کی کارکردگی کی تقلید کرنے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ خواہش تھی کہ میرے دور میں قومی ٹیم مزید بہتر نتائج پیش کرتی۔ ممکن ہے میں نے غیردانستہ طور پر کچھ باصلاحیت کھلاڑیوں کو نظر انداز کردیا ہو تاہم میرا مقصد صرف پاکستان کرکٹ کی بہتری رہا ہے۔ امید ہے مداح ہمیشہ اسی طرح قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔ میں اس موقع پر اپنی سلیکشن کمیٹی کے تمام ممبران کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مل کر انتھک محنت کی۔ میں قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد اور کوچ مکی آرتھر کا بھی ممنون ہوں۔ ہم نے ٹیم کی صورت میں ایک دوسرے کیساتھ مل کر بہترین کام کیا اور مشکل وقت میں ہم ایک ساتھ کھڑے رہ کر درست سمت میں بڑھتے چلے گئے۔ مستقبل کیلئے میں نئے چیف سلیکٹر اور پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ امام الحق کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ سفارش پر نہیں بلکہ اپنی پرفارمنس پر ٹیم میں آیا ہے۔ اس وقت میں چیف سلیکٹر نہیں تھا جب امام الحق 2014ء میں پاکستان انڈر 19 ٹیم کا نائب کپتان تھا۔ امام الحق کی ڈومیسٹک کارکردگی پر مکی آرتھر اور گرانٹ فلاور نے سلیکشن کمیٹ یکو سفارش کی تھی کہ وہ اسے قومی ٹیم میں لینا چاہتے ہیں۔ امام الحق اور میرے لیے تین سال کافی سخت رہے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے اس کے باوجود بھی امام الحق نے اچھی پرفارمنس دیکر اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔ ان کا کہنا مجھے ایسا لگتا ہے کہ کسی کرکٹر کا رشتہ دار ہونا جرم لگتا ہے۔ قومی چیف سلیکٹر انضمام الحق کا کہنا تھا کہ آئی سی سی ورلڈ کپ کے فائنل کا فیصلہ باونڈریز پر ہونا افسوسناک ہے۔ کم از کم رن ریٹ یا پھر ماضی کی طرح جس میں دیکھا جاتا تھا کہ اس ٹیم کا لیگ میں کیا نتیجہ رہا ہے۔ آئی سی سی کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

ای پیپر-دی نیشن