کلبھوشن کیس: ملٹری کورٹ ہی نظرثانی کی مجاز، حامد خان، سول عدالتیں جائزہ لے سکتی ہیں: احمر بلال صوفی، علی ظفر
اسلام آباد (نیٹ نیوز) عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں جہاں کلبھوشن یادیو کی بریت کی درخواست رد کی وہیں پاکستان سے اس کی سزا پر نظرثانی کو بھی کہا ہے۔ سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا نظرِثانی کا عمل وہی عدالت انجام دے سکتی ہے جس نے پہلی بار سزا سنائی۔ ’کئی ممالک میں سزائے موت نہیں دی جاتی اس لیے اس سزا کو سخت سمجھتے ہوئے اس پر نظرِثانی کے لیے کہا گیا ہے۔‘ ان کے بقول ’سویلین عدالت کی جگہ وہی عدالت نظرثانی کرے گی جس نے سزا سنائی۔‘ خیال رہے کہ کلبھوشن یادیو کو یہ سزا فوجی عدالت نے سنائی تھی۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف نے فوجی عدالت کو مجاز عدالت یا فورم تسیلم کیا ہے اور اس کے دائرہ سماعت پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تاہم ان کے مطابق اگر اس معاملے پر پاکستان کی اعلٰی عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے تو پھر صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ عالمی قوانین کے ماہر وکیل اور قانون دان احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ موثر نظرثانی سے مراد ایسا فورم ہوسکتا ہے جس میں عالمی ماہرین قانون کو بھی شامل کیا جا سکتا ہو یا پھر ملک کے ماہرین قانون سزا کا جائزہ لیں۔ تاہم سابق وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ پاکستانی عدالتیں اس معاملے پر موثر نظرثانی کرسکتی ہیں اور عالمی عدالت انصاف نے پاکستانی عدالتوں پر اعتماد کیا ہے اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر اور احمر بلال صوفی اس نکتہ پر متفق نظر آئے کہ پاکستان کو ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے عالمی قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔ احمر بلال صوفی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کچھ ممالک نے عالمی عدالت کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کیا اور ایسے میں سکیورٹی کونسل اس ملک کی جانب سے فیصلہ تسلیم نہ کرنے کی وجوہات پر غور کرتی ہے۔