ہجوم
قائد کو راستے ہی میں کسی نے خبر دی تھی اور وڈیو بھی دکھائی تھی۔ وہ غم سے نڈھال تھے۔ تبریز کے گرد مجمع اکٹھا تھا۔ وہ اس کو چور بُلا رہے تھے۔ اس کے منہ سے ’جی شری رام‘ سننا چاہتے تھے۔ قائد کی آنکھیں بھر آئیں۔ ساتھی نے جب یہ دیکھا تو ان کی خوش کی خاطر بتایا کہ پاکستان میں سب لوگ آپ کے شکر گزار ہیں کہ الگ ملک لے دیا جہاں مسلمانوں کی عزت، جان اور مال محفوظ ہے۔ قائد کے چہرے پر قدرے اطمینان کے تاثرات ابھرے۔ ’’کتنا سفر رہ گیا ہے؟‘‘ بس قائد ہم پہنچنے والے ہی ہیں۔ قائد نے سرزمین پاک پر قدم رکھا تو ان کا دل چاہ رہا تھا کہ ان کا سفر کبھی ختم نہ ہو اور وہ ایک شہر سے دوسرا شہر دیکھتے رہیں۔ وہ تھوڑا پیچھے کی طرف چلے گئے…ایک جگہ سے شور اٹھ رہا تھا…دو نوجوان لڑکے منیب اور مغیث جن کی عمریں پندرہ اور سترہ برس کے بیچ ہوں گی، ان کو الٹا لٹکا کر بے دردی سے مارا جا رہا تھا۔ ان پر بھی چوری کا الزام تھا۔ قائد کو جیسے یقین نہ آیا۔ وہ تھوڑا آگے گئے تو ایک خوبصورت نوجوان کے بے جان جسم کو اس کے کالج کے اندر اس کے اپنے ہی ساتھی بے حرمتی کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اب قائد کے اندر مزید چلنے کی ہمت نہ رہی۔ وہ وہیں بیٹھ گئے تو خون سے لتھڑے کپڑوں کے ساتھ ایک غمگین ماں ان کے قدموں میں بیٹھ گئی اور کہنے لگی کہ میں اپنے بیٹے کی لاش نہیں پہچان سکی۔ اس کے بازو پر موجود پیدائشی نشان سے مجھے معلوم پڑا کہ وہ میرا بیٹا تھا۔ قائد اب پکے فرش سے زمین پر بیٹھ گئے۔ کتنی ہی دیر لوگ اُن کے پاس آتے رہے۔ سلفیاں بنائیں اور ان کا بے حد شکر ادا کرتے رہے۔ قائد ایک بے جان مورتی کی طرح کچھ دیر یہ سب دیکھتے رہے۔ جھک کر ہتھیلی میں پاک سرزمین کی تھوڑی سی مٹی جمع کی اور ایک سمت چل د ئیے۔ لوگوں نے ان کے جاتے ہی ہجوم کی شکل اختیار کر لی اور پھر سے بڑے بڑے پتھر کے ٹکڑے اٹھا کر جیبوں میں بھر لیے۔ وہی ہجوم جو ہر وڈیو میں ملتا ہے۔