دولت مشترکہ کی 70 ویں سالگرہ …شاہ محمود قریشی کا خطاب
لندن میں دولت مشترکہ کی 70 سالہ تقریبات کی سالگرہ میں شامل 53 رکن ممالک بشمول پاکستان کی کوریج کا ایک مرتبہ پھر اعزاز حاصل کر رہا ہوں ۔ ’’گلوبل کانفرنس برائے میڈیا فریڈم‘‘ کے نام سے جاری اس دو روزہ کانفرنس کا بنیادی موضوع DEFEND MRDIA FREEDOM تھا جس میں صحافیوں کو درپیش مسائل، کام کے حوالہ سے ان کی جان و مال کا تحفظ، صحافت اور جمہوریت میں پڑنے والی دراڑوں کا نوٹس، آزادی اظہار خیال پر لگائی قدغن کے خلاف فوری اقدامات، انسانی حقوق کی پاسداری IMPUNITY اور ریاست کا صحافیوں کے خلاف کئے گئے اقدامات کا فوری نوٹس اور صحافیوں کا دوران ڈیوٹی قتل وہ بنیادی موضوعات تھے جن پر دولت مشترکہ کے مندوبین کو اظہار خیال کرنے کی د عوت دی گئی تھی۔ بعض دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی آزادی صحافت پر اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھی جس میں ملک کی معاشی ترقی، ٹریڈ ، سرمایہ کاری، سی ۔ پیک ، ٹورازم، دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کامیاب کوششیں، منی لانڈرنگ کا خاتمہ، صحت اور تعلیم کے منصوبوں کی کامیابی آئندہ 5 برس تک 10 ملین روپے کی لاگت سے درخت لگانے کا منصوبہ۔ موجودہ حکومت کے عوامی منصوبوں کی مزید توسیع ایسے تمام موضوعات شامل تھے مگر آزادیٔ اظہار صحافت ’’پر تقریر کرنے کے لیے انہیں دوسرے سیشن میں دوپہر ایک بجکر 35 منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔ مقررہ وقت پر شاہ محمود قریشی اور ’’عوامی جمہوریہ مرسیڈونیا‘‘ کے نمائندے کو سٹیج پر بٹھایا گیا۔ سامعین میں پاکستان ہائی کمشن کے چند ا فسران، ہائی کمشنر محمد نفیس زکریا، پاکستانی نجی ٹیلی ویژنوں کے چند نمائندے، مقامی الیکٹرانک میڈیا کے نمائند ے اور روزنامہ نوائے وقت لاہور کے لیے میں اپنے الیکٹرانک میڈیا دوستوں کے ہمراہ موجود تھا۔ پہلی صف میں ہائی کمشنر نفیس زکریا ان کے چند افسران اور ان کی بائیں جانب ہماری نشستیں تھیں ہال میں کل ڈیڑھ سو کے قریب کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ اتنی تعداد میں کرسیاں کیوں لگائی گئی تھیں؟؟ اس بارے میں سب سے پہلے یہ وضاحت کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ خوشحالی کے حصول کیلئے آئے یہاں آئے بعض اُن پاکستانیوں نے جنہیں ’’بلیک لیبل‘ اور ’’شواز ریل آج‘‘ مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے چکی ہے؟ ایسی سیاسی شعبدہ بازیوں میں مصروف ہیں کہ پاکستان جو ہماری ماں ہے اس کی عزت و توقیر تک کا خیال نہیں رکھتے۔
ابتدا میں جیسا میں نے کہا کہ GLOBAL CONFERENCE FOR MEDIN FREEDON کی میزبانی کے فرائض چونکہ کینیڈا اور حکومت برطانیہ سرانجام دے رہے تھے۔ اس لیے مفت BREAK FAST اینڈ LUNCH اور 53 ممالک سے آئے مندوبین کے 2 روزہ انتظامات ، ممالک کے مسائل کے حوالہ سے کرسیوں کی ترتیب اور سخت سکیورٹی مانیٹرنگ حکومت کے حساس اداروں کے ذمہ تھی۔
DARK ROOM پراسِس ، آرمڈ پولیس، سپیشل برانچ، ڈپلومیٹک ونگ، سکاٹ لینڈ یارڈ، اور ایم ۔ آئی فائیو کو کلیدی رول ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ہر DELEGATION کا ہال موضوع اور سپیکر کے اظہار وخیال کے مطابق تیارکیا گیا تھا۔ وزیر خارج شاہ محمود قریشی کو دوپہر ڈیڑھ بجے خطاب کرنا تھا اس لیے ہائی کمشن نے صبح 10 بجکر 15 منٹ پر ہائی کمشن میں پاکستانی صحافیوں سے قریشی صاحب کی بریفنگ کا وقت طے کر لیا…اب یہ نہ پوچھیں کیا ہوا؟ ’’اپناٹڈ‘‘ ننگا کرنا گوارہ نہیں؟؟ زیادہ تر دوست بروقت ’’ایکریڈیشن‘‘ چونکہ حاصل نہ کر پائے تھے…اس لیے ’’گلوبل میڈیا فریڈم کانفرنس‘‘ کی کوریج کرنے سے وہ محروم رہے۔
ڈیڑھ بجے دوپہر شاہ محمود قریشی فریڈم کانفرنس کے لیے جب سٹیج پر بٹھائے گئے تو بلاشبہ بیشتر نشستیں خالی تھیں۔ ایسا صرف پاکستانی وزیر خارجہ کے خطاب کے دوران ہی نہ تھا بلکہ ان کی تقریر سے قبل ایک یورپی ملک کے وزیر خارجہ کی تقریر کے دوران بھی سامعین کی تعداد 40 افراد سے زیادہ نہ تھی…یہ صورت حال دیکھتے ہوئے ’’سوشل میڈیا‘‘ کے بنیادی اصول سے نابلد شخص نے پاکستانی وزیر خارجہ کو دنیا میں کمزور ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اور اپنا کام دکھاتے ہوئے یہ پراپیگنڈا پھیلا دیا کہ زیادہ تر کرسیاں ’’خالی رہیں…؟
شاہ محمود قریشی کی تقریرکے اختتام پر میزبان سپیکر نے سوالات کا اعلان کیا ہی تھا کہ ہمارے ایک پاکستانی جرنلسٹ کے انتہائی جاندار سوال کی کاپی کرتے ہوئے 4 نشستیں دور بیٹھے کینیڈین صحافی نے سوشل میڈیا پر ’’کام‘‘ دکھانے والوں کی مشکل آسان کر دی…اور ’’پاکستان میں آزادی اظہار‘‘ کو غلط قرار دیتے ہوئے رونا یہ رویا کہ حکومت پاکستان نے اس کا TWEET بند کر رکھا ہے…جو آزادی صحافت کے خلاف ہے۔ گفتگو اس کی چونکہ غیر مہذبانہ تھی…اس لیے شاہ محمود قریشی نے اسے اس کی زبان میں ہی سمجھا دیا کہ ٹویٹ، اگر تمہارا بند ہوا ہے تو اس کا مجھ سے یا اس کانفرنس سے کیا تعلق، تمہیں چاہئے تھا کہ تم بذریعہ چینل اپنی درخواست حکومت کو بھجواتے۔ تمہاری اس حرکت نے مجھے نہیں تمہیں خود شرمسار کیا ہے۔ سُن لو…دوبارہ سُن لو! پاکستان میں آزادی اظہار اور مثبت صحافت پر کوئی پابندی نہیں…؟