قومی ریاستی اداروں کے باہمی تال میل سے ملک اور عوام کا مقدر سنوارا جا سکتا ہے
وزیراعظم کا قانون کی بالادستی کیلئے اداروں کے کام میں مداخلت نہ کرنے کا عندیہ اور عوام کو ریلیف دینے کی ہدایت
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ادارے قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں‘ حکومت اداروں کے کام میں مداخلت نہیں کریگی۔ گزشتہ روز اپنے دورۂ لاہور کے موقع پر وزیراعظم نے لاہور چیمبرز آف کامرس کے وفد سے ملاقات کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت صنعت کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ جب تک ٹیکس کا نظام درست نہیں ہوگا‘ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ انکے بقول مشکل حالات میں سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ ملک اس وقت مشکل حالات میں ہے‘ تاجر اور عوام ہمارا ساتھ دیں‘ قانون سب کیلئے برابر ہے۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے وزیراعظم عمران خان کی لاہور آمد پر ان کا استقبال کیا اور ون آن ون میٹنگ کے دوران انہیں صوبائی حکومت کی کارکردگی‘ اہم منصوبوں اور مجموعی سیاسی صورتحال پر بریفنگ دی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب کو ہدایت کی کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے‘ مہنگائی پر قابو پانے اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کارروائی کیلئے وہ فوری اقدامات اٹھائیں۔
وزیراعظم کے دورۂ لاہور کے موقع پر گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے بھی ان سے خصوصی ملاقات کی اور کرتارپور راہداری‘ سیاحت کے فروغ‘ 31 اگست کے بین الاقوامی سکھ کنونشن اور پنجاب میں پینے کے صاف پانی کے منصوبوں میں پیش رفت سے انہیں آگاہ کیا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم نے لاہور میں صنعتی زون کے قیام کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت بھی کی جس میں وزیراعظم کو لاہور کے ماسٹر پلان کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے ماحولیاتی آلودگی کے چیلنج سے نمٹنے اور شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے فوری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر بھی ایک بیان جاری کیا اور اپنے ٹویٹ میں کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن کو بری نہ کرنا اور اسے بھارت کے سپرد نہ کرنا قابل تحسین ہے۔ وزیراعظم نے باور کرایا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن پاکستانی عوام کیخلاف جرائم کا مرتکب ہوا‘ پاکستان اس کیس میں قانون کے مطابق کارروائی کریگا۔
وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان نے عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں اور اپنے پارٹی منشور کی روشنی میں پی ٹی آئی حکومت کی جو ترجیحات متعین کیں ان میں کرپشن فری سوسائٹی کے علاوہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو یقینی بنانا بھی شامل تھا۔ وزیراعظم نے بے لاگ اور بلاامتیاز احتساب کا بیڑہ اٹھایا تو اس کیلئے آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو یقینی بنا کر ہی مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ریاستی اداروں اور انتظامی مشینری کو آزادی اور خودمختاری کے ساتھ کام کرنے کی ضمانت فراہم کی جس کے لامحالہ مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ نیب کے ماتحت احتساب کے عمل میں سرعت پیدا ہوئی اور عدلیہ بھی آئین اور قانون کے دائرہ کار میں بے لاگ احتساب کے عمل میں معاون بنی جبکہ عساکر پاکستان نے بھی بہتر گورننس اور اس ارض وطن کو اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے قالب میں ڈھالنے کیلئے حکومت کے مشکل فیصلوں میں اس کا ہاتھ بٹانے کا عزم باندھا‘ اپنی آئینی ذمہ داریوں کے تقاضوں کے مطابق تعمیر وطن میں حصہ ڈالا اور قومی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے جذبے کے تحت اپنی مراعات کی قربانی دیتے ہوئے دفاعی بجٹ میں اضافہ سے معذرت کرلی۔
یہ امر واقع ہے کہ سابق ادوار میں حکمران اشرافیائوں کی جانب سے قومی دولت و وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرکے اس ارض وطن کو شیرمادر کی طرح چوسا اور چچوڑا گیا تھا اور اقربا پروریوں کی انتہاء کرتے ہوئے میرٹ اور قانون کی حکمرانی کا جنازہ نکالا گیا تھا اس لئے اقتدار سنبھانے کے بعد بدحالی کی انتہاء کو پہنچی معیشت کو سنبھالا دینا اور ناانصافیوں کا شاہکار بنے سیاسی اور عدالتی نظام میں تطہیر کا عمل شروع کرنا وزیراعظم عمران خان کیلئے بہت بڑا چیلنج تھا جو انہوں نے بسروچشم قبول کیا اور اصلاح احوال کیلئے وفاق اور صوبوں میں اپنی بہترین ٹیموں کا انتخاب کیا۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے سردار عثمان بزدار کا انتخاب کرکے تو وزیراعظم عمران خان نے سیاسی بزرجمہروں کو بھی چونکا دیا اور ان کیلئے وسیم اکرم کی مثال دیکر اس یقین کا اظہار کیا کہ وہ صوبے میں بہتر گورننس کیلئے ان کا بہترین انتخاب ثابت ہونگے۔ یقیناً سردار عثمان بزدار نے بھی اپنے قائد کے اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی اور انکے ویژن کے مطابق جہاں ماضی کا گند صاف کرنے کیلئے وزیراعظم کی معاونت کی وہیں انہوں نے صوبے کے عوام کے روزمرہ کے مسائل کے حل کیلئے بھی صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کو متحرک کرکے اچھی گورننس کی کئی مثالیں قائم کی ہیں۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ سردار عثمان بزدار کو اپنے قائد عمران خان کا بھرپور اعتماد حاصل ہے جس کو بروئے کار لا کر وہ ایک فلاحی جمہوری معاشرے کی بنیاد اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مضبوط بنا رہے ہیں اور ہر شعبہ ہائے زندگی کے طبقات کی ضرورتوں‘ مشکلات اور مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اصلاح احوال کے ٹھوس اقدامات اٹھا رہے ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان لاہور آکر پنجاب کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں اور کابینہ کے ارکان کی کارکردگی کا جائزہ لے کر خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور انہیںکارکردگی مزید بہتر بنانے کی ہدایت کرتے ہیں تو اس سے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو بھی حکومتی گورننس مزید بہتر بنانے کیلئے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح وہ وفاق اور اسکی اکائیوں میں تال میل اور معاملہ فہمی کیلئے بھی نئی مثالیں قائم کررہے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی لاہور آمد کے موقع پر سردار عثمان بزدار کی وزیراعظم سے ون آن ون ملاقات بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھی جس میں وزیراعظم نے مہنگائی روکنے‘ ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کارروائی کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے احکام جاری کرکے درحقیقت ایک فلاحی جمہوری ریاست کے تشخص کو اجاگر کیا کیونکہ آج مہنگائی ہی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جسے ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں نے مزید گھمبیر بنادیا ہے۔ چنانچہ ان عناصر کا کڑا احتساب کرکے فلاحی جمہوری ریاست کا تصور پختہ کیا اور عوام کا سسٹم پر اعتماد مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت کے مشکل فیصلوں سے بدحالی کا شکار معیشت کو سنبھالا جا سکتا ہے تو یقیناً عوام بھی اپنے بہتر مستقبل کی خاطر قربانی دینے کو تیار ہونگے اور ٹیکسوں کا بوجھ بھی برداشت کرلیں گے۔ البتہ وہ معاشرے میں انسانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور صرف اشرافیائوں کو سسٹم کے ثمرات سے مستفید ہوتے دیکھ کر ضرور مایوس ہوتے ہیں۔ غریب اور امیر اور باوسیلہ و بے وسیلہ طبقات کیلئے انصاف اور قانون کے دہرے معیارات کا تصور پختہ ہوتا ہے تو اس سے ’’عوام کی حکومت عوام کے ذریعے‘ عوام کیلئے‘‘ والا سلطانیٔ جمہور کا تصور بھی گہنا جاتاہے اور طبقاتی کشمکش میں خلق خدا راندۂ درگاہ بن جاتی ہے۔ عوام کے ذہنوں میں انصاف اور قانون کے دہرے معیارات کا راسخ ہونیوالا تصور آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بے لاگ عملداری یقینی بنا کر ہی زائل کیا جا سکتا ہے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومتی ٹیم کو بھی اس صورتحال کا مکمل ادراک ہے چنانچہ وہ آئین و قانون کی بالادستی یقینی بنانے کیلئے اداروں کے آزادی کے ساتھ کام کرنے کے قائل ہیں۔ اگر قومی ریاستی ادارے اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں بجا لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں تو وزیراعظم کا ریاست مدینہ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔