شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی کیس میں نیب حکام نے گرفتار کر لیا۔ نیب حکام کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کو 4 بار طلب کیا گیا تھا۔ عدم تعاون پر نیب نے انہیں گرفتار کر لیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل کے گھر اور فیکٹری پر ان کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا گیا۔ تحریک انصاف کرپشن کے خاتمے اور کڑے احتساب کے وعدوں اور دعوئوں کے تحت اقتدار میں آئی۔ اس مقصد کے لیے وہ پرعزم ہے اور کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لا رہی۔ حکومت کا براہِ راست کسی گرفتاری میں کوئی کردار نہیں، ادارے اپنا کام کر رہے ہیں جن کو حکومت سپورٹ کرتی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی معاہدوں میں مبینہ بے ضابطگیوں پر گرفتار کیا گیا، وہ نیب سے تعاون کرتے یا قبل از گرفتاری ضمانت کرا لیتے تو شاید گرفتاری کی نوبت نہ آتی۔ قطر کے ساتھ ایل این جی معاہدے کو مشتہر نہ کرنے کی بھی ایک شرط موجود ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ احتساب شروع ہو گیا، جس نے غلط کیا گرفتار ہو گا۔ اپوزیشن کی طرف سے شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری پر شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسے انتقامی کارروائی سے تعبیرکیا گیا ہے۔ جو بھی کردار کرپشن، بدعنوانی اور بے ضابطگیوں میں ملوث ہے، اس کی انکوائری ضرور ہونی چاہئے مگر انتقامی کارروائی کا تاثر بھی نہیں ہونا چاہئے، یہی شفاف احتساب کا تقاضہ ہے۔ مفتاح اسمعٰیل چھاپے کے دوران حراست میں نہیں آ سکے۔ انہوں نے حفاظتی ضمانت کرا لی، مفتاح کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ گورنر سندھ کے بھائی ہیں۔ ضمانت قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ہی ہوئی تو بھی کچھ حلقے سوال اٹھا رہے ہیں۔ ایسی ضمانت حمزہ شہباز کی بھی ہوئی تھی۔ بہرحال احتساب کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ ملکی و قومی وسائل کو لوٹنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ۔ اس کے ساتھ احتسابی عمل کی شفافیت کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔