ٹاسک فورسز سے 56 کمپنیوں کا قصہ !
یوں تو غریب و مفلس عوام کے ٹیکسوں سے ترتیب پانے والے ملکی خزانے سے ہاتھ رنگنے والے اور ان کے سرپرستوں کے قصے زبان زدِ عام ہیں اور ایسے قصے کہانیوں سے ہر دور کے حکمران سادہ لوح عوام کا دل بہلاتے اور ان کے جذبات سے کھیلنے کا کام لینے میں کسی قسم کے تساہل سے کام لینا گوارا نہیں کرتے۔ زیادہ دور کیوں جائیں چند ماہ ادھر کی بات ہے کہ پنجاب کی سابق حکومت کے دور میں اصلاح احوال کی آڑ میں درجنوں کی حساب سے غالباً 56 کمپنیوں کا سراغ لگایا گیا۔ بڑا غلغلہ اٹھا۔ اتنا شور کہ گلی کوچہ میں 56 کمپنیوں ہی کا ذکر رہا۔ کمپنیوں کا قیام کوئی نئی بات نہیں ۔ ملک کے عوام کی خطِ غربت سے نیچے تک کی زندگی بسر کرنے والے چالیس فیصد عوام اس بات پر تلملا کر رہ گئے کہ ان کمپنیوں کے سربراہ اور بعض دوسرے ’’شاہ کے من پسندوں‘‘ کو لاکھوں روپے ماہوار تنخواہوں سے نوازا گیا تھا۔ یہ کیونکر ہوا کیسے ہوا؟ سابقہ حکمرانوں میں مغل شہنشاہوں کی روح کیسے سرایت کر گئی کہ اپنے اور اپنے مصاحبین کے سوا ان کے نزدیک آسودگی سے جینے کا حق دینا گوارا نہ سمجھا گیا۔ میرٹ کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھولے بھالے فاقہ کش کروڑوں خاندان حکمرانوں کے ایسے کھلونوں سے کئی ماہ پہلے اور کمپنیوں کے حوالے سے ترتیب دی جانے والی بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہے ا ور قومی خزانے کی اس طرح بندربانٹ سے ہاتھ رنگنے والوں کے انجام کا انتظار میں تھک ہار کر نتائج سے مایوس ہو گئے۔ کاش ایوان اقتدار کے مکینوں کی طرف ملکی خزانے کو لوٹ مار سے بچانے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ آئین و قانون کی روشنی میں ایسے اقدامات اٹھائے جاتے کہ غریب قوم اپنا حال اور مستقبل لٹنے پر ماتم کناں تو نہ ہوتی۔
بلاشبہ یہ شرف ارض وطن کے سب سے قدیم اور موقر جریدہ روزنامہ نوائے وقت ہی کو حاصل ہے کہ اس نے ہر دور میں قومی اور ملکی مفاد سے متصادم ہر حکومت کی پالیسیوں کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا۔ اپنی اسی روایت کی روشنی میں /4 اکتوبر 2010ء کو اخبار نے پنجاب میں ٹاسک فورسز کے قیام پر کروڑوں روپے کے ضیاع کی خبر سے قوم کو آگاہ کیا تھا اور جس میں دوٹوک الفاظ میں بتایا گیا تھا کہ یہ سب کچھ گڈگورننس کی آڑ لے کر کیا گیا ہے۔ ٹاسک فورسز کے قیام کی بھرمار کی گئی۔ صوبائی حکومت کے سربراہ کی طرف سے یہ ٹاسک فورسز اپنے حواریوں، حاشیہ برداروں، خوشامدیوں اور چاپلوسی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے سرکاری ملازمین اور ارکان اسمبلی کو قومی خزانے سے نوازنے کے لیے قائم کی گئی تھیں۔ عوام نے دل تھام کر ان ٹاسک فورسز کے قصے سنے تھے۔ 2010ء تک دو برس کے عرصے میں پنجاب میں جو ٹاسک فورسز بنائی گئیں ان میں چھ ٹاسک فورسز کے چیئرمین ایک لاکھ 95 ہزار روپے سے 75 ہزار روپے تنخواہ 200 سے 340 لیٹر پٹرول حاصل کرتے رہے۔ 2 ٹاسک فورسز کے چیئرمین ماہوار ایک لاکھ 95 ہزار روپے اور 5 ٹاسک فورسز ماہانہ 75 ہزار روپے تنخواہ کی مد میں فی کس وصول کرتے، تین ٹاسک فورسز کے چیئرمین بغیر تنخواہ گاڑی اور دیگر مراعات کے اعزازی طور پر کام کرتے تھے، جبکہ 20 ٹاسک فورسز کے چیئرمین کو ماہانہ تیرہ سو سی سی گاڑی پچاس لٹر ماہانہ پٹرول سرکاری ملازمین اور دیگر مراعات فراہم کی گئیں۔ ن لیگ کی صوبائی حکومت نے دو اراکین قومی اسمبلی بارہ اراکین صوبائی اسمبلی کے علاوہ بارہ اہم پارٹی اہم رہنمائوں کو بھی ٹاسک فورسز کا چیئرمین مقرر کیا۔ 2008ء سے 2010ء کے دوران مجموعی طور پر 13 محکموں میں 27 افراد کا ٹاسک فورسز کے سربراہ کے طور پر تقرر کیا گیا۔ ٹاسک فورسز کے سربراہ کے طور پر کام کرنے والے ذمہ داروں میں صوبائی چیف ایگزیکٹو کے علاوہ ان کے صاحبزادہ کا نام بھی شامل تھا۔ حکومت پنجاب کی جانب سے بنائی گئی ٹاسک فورسز میں سے محکمہ صحت کے لیے تین محکمہ انڈسٹریز کے لیے تین سکولز ایجوکیشنز کے لیے 2 محکمہ سپورٹس کے لیے تین سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے لیے دو محکمہ داخلہ کے لیے چار محکمہ زراعت کیلئے تین ٹاسک فورسز بنائی گئی تھیں۔ ٹاسک فورسز کو دو کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ٹاسک فورس برائے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ چیئرمین سید فروغ نوید آفتاب اور اسی ٹاسک فورس کے ممبر وقار احمد خان کو سب سے زیادہ مراعات ماہانہ ایک لاکھ 95 ہزار فی کس 1600 سی سی گاڑی ’’اور ماہانہ 340 لٹر پٹرول کی سہولت دی گئی۔ 5 ٹاسک فورسز کے چیئرمین بالترتیب ماہانہ 75 ہزار روپے تنخواہ 1300 سی سی گاڑی اور ماہانہ 200 لٹر پٹرول حاصل کرتے ان میں ٹاسک فورس برائے سپورٹس کی چیئرپرسن اور دوسری ٹاسک فورس کے چیئرمین اعجاز گل سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی ٹاسک فورس کے چیئرمین، ٹاسک فورس برائے تحفظ ماحولیات کے چیئرمین اویس فاروقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ٹاسک فورس کے چیئرمین ندیم حق کے نام شامل تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سستی روٹی برائے جنوبی پنجاب کے چیئرمین سمیع اللہ چودھری، سٹیزن ویجیلنس ٹاسک فورس کے وحید اسلم، سید ناظم حسنین شاہ برائے فراہمی اشیائے ضروریہ، مس سائرہ افضل تارڑ ٹاسک فورس برائے خواتین ٹیچرز ٹریننگ، شجاع خانزادہ ٹاسک فورس برائے فرٹیلائزرز میں ملاوٹ کی روک تھام، محسن لطیف ٹاسک فورس برائے پارکس اینڈ ہارٹیکلچر، مسز عفت علی ٹاسک فورس برائے سوشل ایشوز، علی اصغر منڈا ٹاسک فورس آئی کیٹل تھیفٹ ، سٹیزن پنجاب چودھری محمد ارشد چیئرمین ٹاسک فورس برائے کیٹل تھیفٹ ان سدرن پنجاب چودھری محمد یعقوب ٹاسک فورس اربن انیڈ رورل ایریا کھیلوں کا فروغ ندیم حسن ٹاسک فورس ضلعی سطح پر آئی ٹی کا فروغ ٹاسک فورس، ان سب کو ماہانہ 1300 سی سی گاڑی ،200 لٹر پٹرول کی سہولت دی گئی تھی۔
اسی طرح راجہ محمد انور، تنویر احمد، ڈاکٹر سعید الٰہی ، ڈاکٹر فرخ جاوید کو بھی مختلف ٹاسک فورسز کا سربراہ مقرر کیا گیا انہیں 1000 سی سی گاڑی اور 150 لٹر پٹرول کی سہولت حاصل رہی۔ لطف کی بات یہ کہ ٹاسک فورسز کے چیئرمینوں کو سرکاری دفاتر، ٹیلی فون اور سرکاری ملازمین کی سہولت بھی دی گئی۔ قبضہ گروپوں کے خلاف ٹاسک فورس کے چیئرمین وزیر اعلیٰ پنجاب خود بنے۔ اسی طرح جیل خانہ میں اصلاحات کی ٹاسک فورس کے چیئرمین حمزہ شہباز اور ٹاسک فورس آئی انرجی کے چیئرمین ندیم بابر تھے‘ دونوں چیئرمین بغیر تنخواہ اعزازی طور پر کام کرتے رہے۔ حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ ٹاسک فورسز کی بے جا روایت کا سدباب ہو جاتا تو شاید پھر ٹاسک فورسز کو درجنوں کمپنیوں کی شکل میں نیا روپ دھارنے یا مرتب کرنے کا راستہ بند ہو جاتا۔