بیج بونے کا موسم
اگر کسی سے پوچھا جائے کہ حسیات کا سفر کیا ہے تو وہ حواس خمسہ کے مخمصے میں پھنس جائے گا۔ حسیات سے ذرا آگے احساس کا سفر ہے اور یہ احساس کے سفر کا مسافر درد بانٹنے کا ہُنر جانتا ہے۔ جناب ساجد ظفر ڈال نے بھی راقمہ کے دیباچے میں اسی اہم نکتے پر بحث کی ہے کہ احساس کے سفر میں بھی انسان کئی منزلوں کا مسافر ہوتا ہے اور سب سے اعلیٰ اور ارفع سفر تو وہ اپنی ذات میں کر رہا ہوتا ہے جو کہ منزل کے قریب ہوتا ہے جو نہ صرف اس کے فہم و ادراک کی نشوونما کرتا ہے بلکہ انسان اپنے ہاتھوں سے ہر موڑ اور ہر گام پر سنگِ میل نصب کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ شعور اور ادراک باہر کی کامیابی سے بدرجہا بہتر اور پائیدار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد کے نزدیک کامیابی کے تمام تر سر سوتے اور روشنی اور روشنی اندر سے پھوٹتی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر محمد زاہد میاں نے اس احساس اور روشنی کے سفر کو ان معنوں میں لیا ہے۔
آرزو کا نگر ضروری تھا
راستے میں شجر ضروری تھا
میرے احساس کو پنپنا ہے
ذات میں اک سفر ضروری تھا
ہر طرف تھیں مسافتیں کتنی
کوئی اب ا یک گھر ضروری تھا
سوچتا ہوں مقامِ منزل پر
کیا سفر عمر بھر ضروری تھا
محمد زاہد میاں نے تو اس نکتے کو بھی اٹھایا ہے کہ مسافر کا سفر منزل تک ہوتا ہے کہ منزل کا مسافر پر نزول ہوتا ہے اور اس نزول کے بعد وہ زندگی کے اسرار و رموز ترتیب دیتا ہے۔ اشفاق احمد کے ہاں منزل تو بذاتِ خود انسان ہے بس فرق صرف یہ ہے کہ وہ راستوں کا چنائو کرتا ہے۔ چنائو کا غلط انتخاب عمر بھر کے سفر کو رائیگاں کر دیتا ہے اور درست انتخاب فیصلوں کو حیاتِ جاویدانی عطا کرتا ہے۔ ڈاکٹر اظہر وحید اس بات کے قائل ہیں کہ راستگی میں اٹھنے والا ہر قدم ہی منزل بن جاتا ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ کشور نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا کہ بیج بونے کا عمل تو اُسی وقت ہی شروع ہو جاتا ہے جب محبت اور احساس کی گیلی مٹی کی خوشبو چاروں اطراف پھیل جاتی ہے۔ محبت اور احساس کا پودا نرم اور گیلی زمین میں ہموار ہوتا ہے۔
ہمواریت درحقیقت اُس راستے پر چلنے کے لیے ضروری ہے جس راستے پر اخلاص ہو اور اخلاص سے ہمیشگی اور دوام ملتا ہے جو صرف کام سے ممکن ہے۔ تب جمعہ ہم مزاج بن جاتا ہے اور ہم مزاجی میں کئی سفر جنم لیتے ہیں۔ عرفان کا سفر، آگہی کا سفر، زندگی کا سفر اور افہام و تفہیم کا سفر، درحقیقت یہ تمام سفر روح کو تکلیفوں سے نکال کر طمانیت کے سفر کی طرف لے کر چلتے ہیں۔ باغبانپورہ کالج میں اُن کی آمد اور تمام معاملات پر گہری نظر درحقیقت اُن کی کام میں دوام اور اخلاص کے جذبے کو ظاہر کرتی ہے کہ جو خوب سے خوب تر کی تلاش کے زمرے میں آتی ہے۔ مختلف کمیٹیوں کا انعقاد کارکردگی کا جائزہ، اساتذہ کی مجموعی کارکردگی اور کالج میں صفائی کی صورتحال یہ وہ موضوعات ہیں کہ جن پر انہوں نے کام کا آغاز کیا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ جس کام کا آغاز اچھا ہو ، اُس کی بنیادیں بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ میں نے کسی کالم میں سیکرٹری ایجوکیشن جناب ساجد ظفر ڈال سے استدعا کی تھی کہ وہ کالجز میں سازشی ماحول کو ختم کرتے ہوئے صحت مندانہ رحجانات کے لیے اقدامات کریں جس پر انہوں نے کالج کے وزٹ کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ڈاکٹر فرزانہ کشور سے بھی یہی گزارش ہے کہ اُن صحت مندانہ رحجانات کو فروغ دیں جس سے تعمیری اور بامقصد جذبہ پیدا ہو اور طالبات کی فلاح و بہبود کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آ سکیں۔ ڈاکٹر اظہر وحید لکھتے ہیں کہ کسی انسان کے معتبر ہونے کے لیے گواہی بھی انسان دیتے ہیں اور معتبر گواہی تو وہ ہوتی ہے کہ جو اس کے ماتحت لوگ اس کی غیر موجودگی میں دیتے ہیں۔ جناب ساجد ظفر ڈال، جناب زاہد میاں اور ڈاکٹر فرزانہ کشور میرے وہ احباب ہیں جو اپنی خداداد صلاحیتوں کی بناء پر قابلِ ستائش اور علمی سفر کو آگے بڑھانے میں روح و رواں ہیں جن سے قافلے منزلوں کو پاتے ہیں۔