والدہ میچ دیکھنے سٹیڈیم آئیں تو تینوں بھائی صفر پر آئوٹ ہوگئے: وزیر محمد
لاہور(سپورٹس رپورٹر ) سابق ٹیسٹ کرکٹر وزیر محمد سکی عمر اس وقت 89 برس سے زیادہ ہو چکی ہے اور اس لحاظ سے وہ پاکستان کے سب سے عمر رسیدہ حیات ٹیسٹ کرکٹر ہیں لیکن اس عمر میں بھی وہ خاصے چاق و چوبند ہیں۔وزیر محمد برطانیہ میں برمنگھم شہر کی ہنگامہ خیزی سے دور سولی ہل کے پرسکون علاقے میں گذشتہ 45 برس سے مقیم ہیں جہاں ان کا بیشتر وقت باغبانی اور ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھنے میں گزرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب وہ کسی بلے باز کی بیٹنگ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اپنے طور پر وہ فیلڈنگ ٹیم کے کپتان بن جاتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ اس بلے باز کے لیے کیسی فیلڈ پلیسنگ کر کے اسے آؤٹ کروایا جا سکتا ہے۔میں نے جتنی بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہے اس دوران حالات کبھی بھی میرے لیے آسان نہیں تھے کیونکہ جب بھی پاکستانی ٹیم کے سلیکشن کا وقت آتا تھا تو تمام کھلاڑیوں کے نام فورا لکھ دیے جاتے تھے لیکن جب بھی میرا نام آتا تو سوالیہ نشان لگا دیا جاتا اور کہا جاتا کہ آپ کی سلیکشن ٹرائلز سے مشروط ہے۔میں ٹرائلز دے دے کر ذہنی طور پر بہت مضبوط ہو گیا تھا اور ٹرائلز سے گھبراتا نہیں تھا بلکہ اس کے لیے تیار رہتا تھا۔ انھوں نے کامن ویلتھ الیون کے خلاف ڈھاکہ میں سنچری بنائی جس کے بعد دوسرا میچ کراچی میں تھا جو دراصل انگلینڈ کے دورے کے لیے ٹرائلز کی حیثیت رکھتا تھا لیکن انھیں اس میچ میں کھلایا ہی نہیں گیا۔وہ میری زندگی میں پہلا موقع تھا جب میں نے سلیکٹرز سے نہ کھلانے پر سوال کیا تھا لیکن مجھے اس کا تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ دراصل انھیں اس بات کا ڈر تھا کہ اگر میں اس میچ میں کھیلا اور رنز کر دیے تو مجھے ٹیم میں شامل کرنا پڑے گا۔ہماری والدہ کرکٹ کی بہت شوقین تھیں اور جب وہ ریڈیو پر کمنٹری سنا کرتی تھیں تو کسی کو ان کے کمرے میں جا کر بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔وہ ہم بھائیوں کے میچ دیکھنے نیشنل سٹیڈیم میں نہیں آتی تھیں لیکن ایک دن ہم انھیں مجبور کر کے سٹیڈیم میں لے آئے لیکن ہمیں کیا پتا تھا کہ قائد اعظم ٹرافی کے اس میچ میں ہم تینوں بھائی صفر پر آؤٹ ہو جائیں گے۔یہ دیکھ کر وہ غصے میں آ گئیں اور کہنے لگیں کہ کیا یہ دکھانے کے لیے تم لوگ مجھے سٹیڈیم لائے تھے۔ایک مرتبہ ہم میں سے کسی بھائی نے صادق محمد کا کیچ لے لیا جس پر والدہ اتنی خفا ہوئیں کہ کئی روز تک ہم بھائیوں سے بات نہیں کی۔رئیس محمد بہت ہی سٹائلش بیٹسمین تھے اور بولنگ بھی کرتے تھے لیکن ان کے ساتھ بھی سلیکٹرز نے یہی کیا کہ ٹرائلز لیتے تھے۔بدقسمتی سے وہ ٹرائلز میں بڑا سکور نہیں کر پائے حالانکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں وہ بڑی اننگز کھیلتے تھے۔ والدہ کو بھی ان کے ٹیسٹ نہ کھیلنے کا افسوس تھا۔میں رئیس محمد کو یہی کہتا تھا کہ وہ خود کو ذہنی طور پر مضبوط کریں تاکہ ٹرائلز میں کامیاب ہو سکیں۔ 1969 ء میں جب نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تو میں سلیکٹر تھا۔ عبدالحفیظ کاردار میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ حنیف محمد سے کہیں کہ وہ ریٹائر ہو جائیں کیونکہ اگر ہم نے انھیں ریٹائر کیا تو یہ اچھی بات نہیں ہو گی۔میں نے حنیف محمد سے کہا کہ مجھے افسوس کے ساتھ آپ کو بتانا پڑ رہا ہے لیکن آپ کو ریٹائر کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔