جج اپنی حرکت پر بلیک میل ہوا، ہائیکورٹ پانامہ کیس دوبارہ ٹرائل کیلئے بھیج سکتی ہے: چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) عدالت عظمی نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل بارے آئینی درخواستوں کی سماعت تین ہفتے کے لئے ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ معاملے میں ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم رپورٹنگ سنٹر نے انکوائری شروع کی ہے۔ جو تین ہفتے میں مکمل ہوجائے گی۔ اس لئے ہمیں انکوائری رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ہم نے اندھیرے میں ہاتھ پائوں نہیں مارنے لوگ چاہتے ہیں کہ ہم اندھیرے میں چھلانگ لگا دیں۔ عدالتیں مکمل آزاد ہیں کسی کے کہنے پر نہیں چلتیں۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اٹارنی جنرل کی معروضات سننے کے بعد کہا ہے کہ ایف آئی اے کی جاری انکوائری جلد مکمل ہو تو معلوم ہوگا کہ ہمیں مداخلت کرنی چاہیے یا نہیں۔ اگر کرنی ہے تو کس حد تک، اندھیرے میں کسی کے کہنے پر چھلا نگ نہیں لگائیں گے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ دیں ہم دیکھیں گے کہ ہمارے لئے اس معاملے میں کس حد تک جانا مناسب ہے،کچھ لوگ چاہیں گے کہ ہم اندھیرے میں چھلانگ لگادیں۔ لیکن ہمیں جلدی نہیں جو کچھ بھی کرنا ہے دانشمندی کے ساتھ کریں گے تاکہ نہ کسی کا نقصان ہو اور نہ فائدہ، وزیر اعظم اور سراج الحق نے ازخود نوٹس لینے کا کہا لیکن بتانا چاہتے ہیں کہ عدالت مطالبوں پر نوٹس نہیں لیتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج کے مس کنڈکٹ کے معاملے کو جانے نہیں دیں گے، یقین رکھیںاس پر ہماری نظر ہے اور اسے دیکھیں گے، جج کے بیان سے ثابت ہے کہ وہ اسطرح کے معاملات میں ملوث ہوتے رہے جس پر انہیں16سال تک بلیک میل کیا جاتا رہا، جج اپنی حرکت پر بلیک میل ہوا لیکن ہمارے لئے حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے الزامات لگائے گئے لیکن کوئی داد رسی کے لئے ہائی کورٹ نہیں گیا جو مجاز فورم ہے۔ ایک شخص جو جیل میں ہے انہوں نے بھی ہائی کورٹ میں کوئی درخواست نہیں دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی کمشن یا انکوائری ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم نہیں کرسکتی ، انکوائری سے مواد سامنے آئے گا اور جب تک اس مواد کو ہائی کورٹ میں زر سماعت اپیل کے ریکارڈ پر نہ لایا جائے اور ہائی کورٹ اس مواد کو قبول کرکے کوئی فیصلہ نہ دیں کسی کو کوئی ریلیف نہیں مل سکتا، ہائی کورٹ کے سامنے اس وقت سزا کے خلاف ملزم اور بریت کے خلاف نیب کی اپیل زیر سماعت ہے اور ہائی کورٹ کے پاس دو راستے ہیں کہ پانامہ کیس میں شواہد کا جائزہ لے کر ری ٹرائل کا حکم دے یا پھر خود فیصلہ کرے ہم معاملے کو دیکھیں گے تو اس کا روز ہیڈ لائنز کے علاوہ کوئی اثر نہیں ہوگا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریما رکس دیے کہ اس وقت ہائی کورٹ ہی نواز شریف کو ریلیف دے سکتی ہے جبکہ، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے عدلیہ کے ادارے کا وقار سب سے اہم ہے کیونکہ اس معاملے میں ادارے کے ایک رکن پرالزامات لگائے گئے ہیں۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے معاملے میں سپریم کورٹ کی براہ راست مداخلت کی مخالفت کی اور کہا کہ متاثرہ جج کی شکایت پر ایف آئی اے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہو چکا ہے جبکہ توہین عدالت کے معاملے میں نیب آرڈیننس اور الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی دفعہ 20 کے تحت قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ ایف آئی اے کی تفتیش کو جاری رہنا چاہیے،اگر کوئی شخص متاثرہ ہے تو وہ داد رسی کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کرے۔ اٹارنی جنرل نے اس ضمن میں ممکنہ کارروائی اور انکوائری کے بارے دستیاب آپشنز کے بارے بتایا تو چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ کہنا چاہتے کہ کارروائی کا پہلا آپشن ایف آئی اے، دوسرا نیب آرڈیننس، تیسرا تعزیرات پاکستان ، چوتھا پیمرا آرڈیننس ۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی کمشن بنا سکتی ہے، پاکستان کمشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت حکومت بھی انکوائری کراسکتی ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم ان درخواستوں کو خارج کردیں یا یہ معاملہ طے کردیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج ارشد ملک بیان حلفی جمع کراچکے ہیں، ایف آئی اے کو شکایت بھی درج کراچکے ہیں۔ سائبر کرائم کی سزا 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہے، فحش ویڈیو یا تصویر بنانے کی سزا 5 سال قید اور 6 لاکھ روپے جرمانہ ہے، کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے ویڈیو یا تصویر پھیلانے کی سزا 3 سال قید اور 10 لاکھ جرمانہ ہے جبکہ الیکٹرانک جعل سازی پر تین سال قید اور ڈھائی لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے ملزم میاں طارق کو اس کیس میں گرفتار کیا ہے، ان کے قبضے سے ایک لینڈ کروزر جو ویڈیو میں نظر آئی بر آمد ہوچکی ہے، میاں طارق کے پاس جج کی ایک ویڈیو تھی جو انہوں نے میاں سلیم رضا نامی شخص کو فروخت کی اور سلیم رضا نے یہ ویڈیو ناصر بٹ کو دی، دونوں ملک سے فرار ہوگئے ہیں،جس ویڈیو کا ذکر جج صاحب نے بیان حلفی میں کیا ہے اس کی نقل اور یو ایس بی حاصل کرلی گئی ہے۔ جسٹس بندیال نے استفسار کیا کہ کتنی ویڈیوز ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج کے بیان کے مطابق ویڈیوز ہیں جن کی بنیاد پر انہیں بلیک میل کیا جاتا رہا، کیا ملتان والی ویڈیو کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی ایس او 9001 لیبارٹری پاکستان میں نہیں لیکن ویڈیو ز کے تجزیے کے لئے ایف آئی اے کے پاس مہارت ہے۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ ویڈیو سال 2000اور2003کے درمیان بنی ہے،اس وقت ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نہیں تھی یہ ویڈیو ٹیپ پر بنی ہے لیکن اصل وڈیوایف آئی اے کو نہیں ملی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی کو جو ملا وہ اصلی نہیں بلکہ کاپی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا حقائق بتا رہے ہیں کہ جج کا کنڈکٹ ٹھیک نہیں تھا جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ایک اور ویڈیو کا بھی ذکر ہے، چیف جسٹس نے کہا ہماری تشویش اس دوسری ویڈیو کے بارے ہے جس میں جج نے اعتراف کیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملتان ویڈیو جج کے خلاف بطور دھمکی استعمال ہوئی،جاتی عمرہ میں نواز شریف نے خود جج کا استقبال کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج ملزم کو کیوں ملتا رہا، حرم شریف میں کیوں ملاقاتیں کیں، جج کے بیان کو دیکھنا پڑے گا کہ وہ کتنا سچ بول رہا ہے اگر جج نے پوائنٹس دیے تو اپیل میں وہ شامل کئے گئے یا نہیں،سب کو معلوم ہے نواز شریف برطانیہ واپسی پر ایئر پورٹ سے گرفتار ہوئے، دوسری سزا میں کہاں گرفتار ہوئے یہ دیکھنا پڑے گا۔دورانِ سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ نواز شریف نے اپیل کب دائر کی تھی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جج کے مطابق نواز شریف سے ملاقات اپریل میں ہوئی تھی اور انہوں نے بروقت اپیل دائر کی تھی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر اپیل اپریل میں دائر ہوئی تھی تو جج نے اپریل میں اس پر بات کیسے کی ؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دوسری ویڈیو تخریف شدہ ہے،آڈیو اور ویڈیو الگ الگ ریکارڈ ہوئی۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پریس کانفرنس میں پیش کی جانے والی ویڈیو جعلی تھی؟ آڈیو ویڈیو کو مکس کرنے کا مطلب ہے اصل مواد نہیں دکھایا گیا، اگر جج صاحب کہتے ہیں کہ یہ اصل ویڈیو نہیں تو اصل ویڈیو سامنے آنی چاہیے جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوشش جاری ہے جبکہ جسٹس بندیال نے کہا کہ بیان حلفی اور ایف آئی آر میں الگ الگ موقف اپنایا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس سارے معاملے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے جو چیئرمین نیب کرسکتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ کارروائی کسی کی شکایت پر ہوگی یا از خود ہوگی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پیمرا آرڈیننس کے تحت بھی کارروائی ہوسکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کارروائی کسی شخص کے خلاف نہیں بلکہ ٹی وی چینلز کے خلاف ہوتی ہے۔ اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ فریقین کے الزامات کی حقیقت جانناچاہتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نوازشریف کی سزا صرف ہائی کورٹ کالعدم کرسکتی ہے جبکہ جج کا کنڈکٹ الگ ایشو ہے ،اس سے ہمارا تعلق بنتا ہے اور ہم اس کو دیکھیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج کے خلاف کارروائی کا فورم بھی موجود ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جج نے اعتراف کیا ہے کہ وہ سولہ سال سے غیر محفوظ تھے، انہوں نے جس کو سزا دی اس سے بھی ملاقات کی اور ان کے لوگوں سے حرم شریف میں بھی ملاقاتیں کرتا رہا۔