• news

فوری انصاف ہر شہری کا بنیادی حق، جھوٹی گواہی بڑی رکاوٹ ہے: چیف جسٹس

لاہور(وقائع نگار خصوصی)چیف جسٹس سردار آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ آئین پاکستان تمام شہریوں کو برابر حقوق دیتا ہے۔ملک میں صحیح ثبوت کے بغیر انصاف نہیں دیا جا سکتا۔انصاف کی فوری فراہمی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ عدلیہ نے ان حقوق کے تحفظ کے لئے مختلف اقدامات کئے ہیں ۔ان اہم اقدامات میں جینڈر بیسڈ وائیلنس کورٹس کا قیام بھی ایک ہے۔ جینڈر بیسڈ وائیلنس قوانین سے متعلق دوسری تین روزہ ورکشاپ کے اختتامی روز خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا پہلا اقدام جھوٹی شہادتوں اور جھوٹے گواہوں کے خلاف ہے۔جھوٹے گواہوں کے خلاف مختلف مقدمات چلائے جارہے ہیں۔پندرہ ملزموں کے خلاف قتل کے مقدمات میں جھوٹی گواہی دینے پر کارروائی ہو رہی ہے۔جھوٹے گواہوں کو سزا دے کر مثال قائم کریں گے۔جھوٹی گواہی انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اگر کسی مقدمے میں جھوٹی گواہی ہو تو اس سے پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔قتل کے مقدمات میں اکثر عینی شاہد جھوٹی گواہی دیتے ہیں۔ دوسرا اہم اقدام ججز کی استعداد کار میں اضافہ ہے۔عوام کی فلاح کیلئے تیسرا اقدام پولیس اصلاحات ہیں جس کے لئے بہت موثر اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ان اقدامات کی بدولت ضلعی عدلیہ میں نئے دائر ہونے والے مقدمات میں 11 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اعلی عدلیہ میں ایسے مقدمات میں 20 فیصدکمی ہوئی ہے۔ ہمارا اگلا اقدام پولیس اسسمنٹ کمیٹیوں کا قیام ہے جن میں ریٹائرڈ سیشن ججز اور وکلاء شامل ہوں گے۔ ہماری جانب سے عوامی فلاح کیلئے اٹھایا جانے والا چوتھا اقدام عدالتوں کی استعداد کار میں اضافہ ہے جس کیلئے ہر عدالت کو ریسرچ سنٹر سے منسلک کیاجارہا ہے جہاں ہر طرح کی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے آرٹیفشل انٹیلی جنس کا طریقہ کار اپنایا جائے گا تاکہ مقدمات کے فیصلے کرتے ہوئے ججز کو ہر طرح کی ممکنہ معاونت کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس سے مقدمات کے فیصلوں کو کیس لاز اور قوانین کے مطابق بنایا جائے گا اور فیصلوں میں پیدا ہونے والی مختلف خامیوں پر قابو پایا جاسکے گا اور ججز فیصلے کرتے ہوئے بہت محتاط ہوجائیں گے۔آرٹیفشل انٹیلی جنس ہماری عدلیہ میں انقلاب پیدا کردے گا اور مقدمات کے فیصلے دنوں کی بجائے گھنٹوں میں اور گھنٹوں کی بجائے منٹوں میں لکھے جائیں گے۔ ہمارا ایک اور اہم اقدام ماڈل کورٹس کا ہے۔ آج ہمیں بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ گزشتہ 96 دنوں میں ملک بھر میں قائم کریمنل ماڈل کورٹس میں 10 ہزار 600 قتل اور نارکوٹکس کے ٹرائلز مکمل کئے گئے۔ اس کا کریڈٹ ہمارے ججز، وکلاء ، پولیس اور پراسیکیوٹرز کو جاتا ہے۔ یہ ہدف ہماری انہی عدالتوں نے مکمل کیا ہے جن پر کام نہ کرنے کا شکوہ کیا جاتا ہے۔ یہ سب کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ ہمارے اندر عوامی فلاح کیلئے کام کرنے کی لگن ضروری ہے۔ پھر کوئی بھی کام ناممکن نہیں رہتا۔ آئین کا آرٹیکل 10 معاشرے کے ہر فرد کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ ہر شخص کو انصاف کی فراہمی ہمارا بنیادی فریضہ ہے۔ لازمی نہیں ہے کہ ہر معاشرے میں ایک صنف مظلوم رہے گی اور دوسری صنف ظالم ہی تصور کی جائے گی۔ جینڈر بیسڈ وائیلنس کرائمز میں فیئر ٹرائل کو یقینی بنانے کیلئے ججز کو اوپن مائنڈ کے ساتھ بیٹھنا ہے، کسی ایک صنف کو مظلوم تصور کرتے ہوئے مقدمات فیصلہ نہیں کرنا بلکہ حقائق اور قوانین کے مطابق فیصلوں کو یقینی بنانا ہے۔پولیس میں اصلاحات کیلئے اقدامات کئے ہیں۔پولیس نے تین ماہ میںاکہتر ہزار شکایات نمٹائیں۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ جینڈر بیسڈ وائیلنس ہماری سوسائٹی کا ایک خوفناک پہلو ہے۔ جسے کچھ عرصہ قبل تک ٹھیک سے جانا بھی نہیں گیا تھا۔ اگر کوئی ایسے جرائم کا شکار فرد عدالت میں آتا تو اسے ایک بھری عدالت میں اپنے اوپر ہوئے ظلم کی کہانی سنانا پڑتی تھی جس وجہ سے ایسے جرائم کا شکار متاثرین عدالتوں میں آنے سے ڈرتے تھے۔ ایک ضلع اور ایک عدالت سے شروع ہونے والا سفر آج پورے ملک کے ہر ضلع تک پہنچ چکا ہے ۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے کہا کہ یہ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ جینڈر بیسڈ وائیلنس جیسے جرائم کی روک تھام کیلئے مل کر کام کیا جائے۔ ایسے جرائم کے متاثرین کو ہماری خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین جینڈر بیسڈ وائیلنس کی بری طرح شکار ہیں۔ ہمارا دین ہر فرد خصوصی طور پر خواتین کو ہر طرح کے بنیادی حقوق دیتا ہے، ہم میں سے کوئی بھی اللہ تبارک وتعالی کی جانب سے عطا کردہ حقوق کو پامال نہیں کرسکتا۔ دنیا بھر کے انسانی حقوق قوانین میں اسلامی بنیادی حقوق قوانین کو حاص مقام حاصل ہے۔ ہم خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس قرآن مجید کی صورت میں تمام بنیادی حقوق و فرائض پر مبنی آئین موجود ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے میں ذیادتیاں اور ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن