مولانا فضل الرحمان کی مذہب کے نام پر سیاست!!!!!
گزشتہ دو دہائیوں میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت بتدریج کمی آئی ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی نشوونما نہ ہونے سے پیدا ہونے والے خلا میں نئی سیاسی جماعتوں نے تیزی سے اپنی جگہ بنائی، کچھ سیاسی جماعتیں آج بھی قومی سطح کی سیاست کا حصہ نظر آتی ہیں جبکہ کئی سیاسی جماعتوں نے علاقائی سطح پر اپنی حیثیت بنائی ہے۔ ماضی میں بننے والی مذہبی سیاسی جماعتوں کے بننے والے اتحاد بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ مذہبی جماعتوں کا سیاسی معاملات میں الگ الگ نقطہ نظر اور موقف بھی ان کی مقبولیت میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مذہبی جماعتوں کا سکڑنا اور محدود ہونا قومی سیاست کا بڑا المیہ ہے۔ اگر ہم گزشتہ بیس سال کی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں تو مذہبی سیاسی جماعتوں کے بنتے ٹوٹتے اتحاد اور دیگر اہم معاملات میں مولانا فضل الرحمان کا کردار بہت مایوس کن نظر آتا ہے۔ جماعت اسلامی کو جمعیت علماء اسلام کے ساتھ اتحاد لے ڈوبا، آج اگر جماعت اسلامی محدود ہوئی ہے تو اسکی وجہ مختلف وقتوں میں مولانا فضل الرحمان پر اندھا اعتماد تھا۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے اتحاد اور اعتماد کے معاملے میں جماعت اسلامی نے ہمیشہ مولانا فضل الرحمان نے ضرورت سے زیادہ انحصار کیا اور اس کا نقصان جماعت اسلامی کو اٹھانا پڑا۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق دو ہزار دو کی اسمبلی میں بھی مولانا فضل الرحمان کے ساتھ بہت زیادہ خوش نہیں تھے جبکہ دوہزار اٹھارہ میں مذہبی جماعتوں کا ہونے والا اتحاد بھی مولانا فضل الرحمان کی مفاد پرستی کی نذر ہوا۔ ماضی میں فضل الرحمان سے ناخوش سراج الحق اس مرتبہ بھی ان کے کردار سے مطمئن نہیں تھے لیکن برملا اظہار کرنے کے بجائے اپنے مزاج اور روایات کو نبھاتے ہوئے خاموش رہے۔ مولانا کے ساتھ اتحاد سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ جلد ممکن نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے محدود ہونے کا نقصان ملک میں مجموعی طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں کو ہوا ہے۔ حال ہی میں قبائلی علاقوں میں ہونے والے انتخابات کے نتائج بھی مذہبی جماعتوں کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہیں ایک ایسا علاقہ جس کا افغان جنگ میں اہم کردار رہا ہے اور یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ان علاقوں میں اثر و رسوخ رکھتی تھیں لیکن انتخابی نتائج نے دیرینہ وابستگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اگر ملک میں مذہبی جماعتوں کا کردار محدود ہو رہا ہے تو اس کے بڑے ذمہ دار مولانا فضل الرحمان کا دوہرا معیار، دوہرا کردار اور مفاد پرستی کی سیاست ہے۔ جب کوئی نامی گرامی عالم دین سیاست کے میدان میں اسلام کے بجائے اسلام آباد کی سیاست سے مشہور ہو جائے تو اس کی حیثیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ سیاسی قلابازیوں کی وجہ سے ہر گذرتے دن کے ساتھ ان کی ساکھ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر پاکستان کا ووٹر مذہبی جماعتوں سے ناراض ہے تو اسکی بڑی وجہ مولانا فضل الرحمان کی اقتدار کی سیاست ہے۔ انہوں نے مذہب کی چھاؤں میں اقتدار کے ایوانوں سے محبت کر کے ملک میں سیاسی جماعتوں کا کردار ہی مشکوک بنا دیا ہے۔ جب آپکا حلیہ دینی ہو جائے تو لوگ کردار سے متاثر ہوتے ہیں۔ لوگ حق اور سچ کی امید رکھتے ہیں، لوگ واضح موقف کی توقع کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مولانا فضل الرحمان یہ ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے دوسری طرف جماعت اسلامی رکھ رکھاؤ کا شکار ہو گئی اور مولانا سیاسی فائدے اٹھاتے رہے۔
مولانا فضل الرحمان خیبر پی کے اور ملک بھر میں مختلف مدارس سے جڑے اور زیر تعلیم طلباء کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں، کیا اسلام کے نام پر قائم کسی بھی سیاسی جماعت کو زیب دیتا ہے کہ وہ سیاسی مقاصد و مفادات کے حصول کے لیے معصوم طلبا کو استعمال کرے۔ کیوں ان طلباء کو جمعیت علماء اسلام کے سیاسی جلسوں میں شامل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے، کیوں ان کی تعلیم کا وقت سیاسی سرگرمیوں کی نذر ہوتا ہے، کیوں ان طالب علموں کو سڑکوں پر خوار کیا جاتا ہے؟؟؟
قارئین کرام مولانا فضل الرحمان کیا اتنی اخلاقی جرات رکھتے ہیں کہ وہ مدارسِ کے طلبا کو اپنی سیاسی مہم جوئی سے الگ کریں اور ان بچوں کو سیاست کے میدان سے دور رکھیں۔ یہ بچے حصول تعلیم کے لیے آتے ہیں سیاسی جلسوں کی رونق بڑھانے، میدان بھرنے اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے نہیں آتے۔ ان کے تعلیمی مستقبل کو داؤ پر لگانا کیا اسلام کی خدمت ہے۔ کون سا قانون اور آئین طلبا کو جلسوں میں لانے کی اجازت دیتا ہے۔ یہی وہ محرکات ہیں جن کی وجہ سے مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار محدود ہوتا جا رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ مولانا فضل الرحمان کی اقتدار کی سیاست ہے۔ اسلام آباد سے دوری نے انکی پریشانی اور بے چینی میں اضافہ کیا ہے، وہ ہر دوسرے روز کسی نئی مہم کا اعلان کرتے ہیں۔ وہ سیاست ضرور کریں ان کا بنیادی حق ہے لیکن مدارس کے طلبا کو اس سیاست سے دور رکھیں۔ ایک طرف وہ دین کی دعوت اور اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں تو دوسری طرف وہ ہر وقت سیاسی فائدے کے حصول کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں سے بات چیت کر رہے ہوتے ہیں اس طرز عمل سے نوجوان مذہبی جماعتوں سے متنفر ہوا ہے جب ووٹر دیکھتا ہے کہ ایک عام سیاست دان بھی غلط بیانی کر رہا ہے اور ایک عالم دین بھی سیاست میں وہی کام کر رہا ہے تو اس کا منفی اثر مذہب کے نام پر ہونیوالی سیاست پر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں مذہبی سیاسی جماعتیں اصل قوت میں سامنے نہیں آ سکیں۔ امید ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنما اس پہلو پر ضرور کام کریں گے کہ دور حاضر کی سیاست میں انہوں نے زندہ کیسے رہنا ہے اور پاکستان میں ہونے والی سیاست کے میدان میں اپنی حیثیت کیسے منوانی ہے۔
قارئین کرام مذہبی جماعتوں کی طاقت میں اضافے، موثر اتحاد اور ووٹرز کی تعداد میں اضافے کے لیے تمام جماعتوں بالخصوص مولانا فضل الرحمان کو اپنا طرز سیاست بدلنا ہو گا اگر ایسا نہ ہوا تو آئندہ انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتی ہے۔