مقبوضہ کشمیر میں نوآبادیاتی تبدیلی نا قابل قبول، بھارت ہمیشہ کشمیر پر ثالثی سے بھاگا: شاہ محمود
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ افغان امن عمل میں پاکستان ضامن نہیں بلکہ صرف سہولت کار ہے۔ منگل کے روز ایک سیمینار سے خطاب کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے پاکستان کے کردار کے بارے میں یہ وضاحت اس وقت کی ہے جب دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا فیصلہ کن دور جاری ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان امن عمل کی ساری ذمہ داری پاکستان پر نہیں ڈالی جاسکتی، پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ یہ تمام فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ امن عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان، افغانوں کے درمیان مذاکرات کے لئے طالبان کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خیر سگالی کے جذبے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے دوران افغانستان کے مسئلے پر ہم آہنگی دیکھی گئی۔ اس سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقاصد کے حصول میں امریکہ کا دورہ انتہائی کامیاب رہا اور یہ دورہ معطل امداد کی بحالی کا بھی مظہر ہے۔ ایک سوال پر وزیرخارجہ نے افسوس ظاہر کیا کہ نہ تو بھارت کشمیر کے تنازع پر پاکستان کے ساتھ دوطرفہ بات چیت کے لئے تیار ہے اور نہ ہی وہ تیسرے فریق کی ثالثی تسلیم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کشمیر میں کسی طرح کی نو آبادیاتی تبدیلی قابل قبول نہیں ۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب میں کسی بھی قسم کی تبدیلی پاکستان کے ساتھ کشمیری عوام کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد دفتر خارجہ میں افریقی سفیروں کی کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ اس سے قبل سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ایک مربوط افریقی پالیسی تیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ افریقی ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو بہتر بنایا جاسکے۔ امریکا کو ایران کا مسئلہ نہیں چھیڑنا چاہیے۔ افریقی ممالک سے تعلقات کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افریقی ممالک میں تجارت،سرمایہ کاری کے وسیع مواقع ہیں، افریقی ممالک بھی پاکستان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ براعظم افریقہ پر ہم ماضی میں توجہ نہیں دے سکے، ستمبر میں افریقی ممالک کے سفارت کاروں کی کانفرنس کریں گے۔ یورپ میں تعینات کچھ کمرشل قونصلرز کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ یورپی ممالک میں مقیم تجارتی قونصلر کو افریقہ تعینات کریں گے۔