• news
  • image

حفیظ الرحمنٰ قریشی (جوہرٹائون) حافظ آباد

تعجب نہ کریں بلکہ حقیقت ہے کہ پنجاب کے دیہات میں تحریک پاکستان کو بڑھاوا دینے والوں میں راقم بھی شامل تھا۔ تب عمریہی کوئی 61/2 یا سات سال ہو گی کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر حافظ آباد (اب ضلع) سے 5 کوس یا دس گیارہ کلومیٹر‘ شمال کی طرف ایک تاریخی گاؤں چک کھرل واقع ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ آبادی کی اکثریت کھرلوں پر مشتمل تھی۔ دو گھر ہندوؤں کے اور ایک سکھوں کا تھا۔ علاقے میں پہلے پرائمری
سکول کو کھلے چھ سات سال ہی ہوئے تھے۔ اس زمانے میں پرائمری سکولوں میں صرف ایک ٹیچر ہوا کرتا تھا۔ جو اتفاقاً برہمن تھا۔ اس کی تو نہ اتنی بڑی تھی کہ اس پر گندم کی بوری باآسانی ٹکائی جا سکی تھی۔ گاؤں کا جب بھی کوئی آدمی سودا سلف لینے حافظ آباد جاتا تو واپسی پر تحریک پاکستان کے جلوسوں کی خبر ضرور لاتا۔ بتاتا۔ جلوس کیسا ہوتا ہے اس کے جھنڈے کیسے ہوتے ہیں۔ نعرے کیسے لگائے جاتے ہیں۔ ’’بابا‘‘ کون ہے۔ پھر ’’بابے‘‘ کی کرامات اور قانون دانی کے قصے سنائے جاتے۔ ایک دن اﷲ بخشے محمد دین نائی ’’شہر‘‘ گیا۔ شہر سے مراد حافظ آباد۔ واپسی پر بتایا وہاں کرفیو لگ گیا ہے۔ ہم سات آٹھ لڑکوں کی منڈلی لفظ کرفیو پر غور کرنے لگے۔ سارے لڑکے مجھ سے ہی پوچھتے تھے اس لئے کہ میں سکولیا تھا۔ بہرحال میں نے حاضر جوابی سے کام لیتے ہوئے ان کی تسلی کر دی۔ قصہ مختصر ہم نے سبز کپڑے پھاڑے‘ سونٹیوں پر باندھے اور گلی گلی‘ لے کے رہیں گے پاکستان‘ بن کے رہے گا پاکستان کے نعرے لگاتے پھرتے۔ ہم خضر حیات ٹوانہ کے خلاف خوب نعرے لگایا کرتے تھے۔ گندم کی کٹائی شروع تھی جب ہم نے پاکستان کے قیام کے لئے ننھی سی تحریک چلائی یہاں تک کہ دھان بوئی جا چکی تھی کہ ایک دن خبر آ گئی پاکستان بن گیا۔ اس دن ہم سارا دن گلیوں میں بھاگتے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے پھرے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن