مودی نے دوسرا راستہ اختیار کرلیا!
امریکی صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کیلئے بھارتی وزیراعظم مودی کی رضامندی کی جو بات وزیراعظم عمران خان سے گفتگو میں کی تھی اس پر بھارت میں جو کہرام مچا‘ حکومت نے تردید کردی مگر مودی مہر بلب ہے اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مودی نے یہ سوچ کر ٹرمپ سے ثالثی کے کردار کی بات کی تھی کہ وہ کون سا اسے طشت ازبام کریگا مگر ٹرمپ کی اپنی مصلحت نے بھانڈہ پھوٹ دیا اور اس پر مودی جن حالات کا شکار ہوا اس حوالے سے میں نے گزشتہ کالم ’’امریکہ کے منہ پر بھارتی طمانچہ‘‘ میں نشاندہی کی تھی۔ ’’اب مودی کے پاس دو راستے ہیں‘ اول یہ کہ وہ جرأت کا مظاہرہ کرے اور بھارتی پارلیمنٹ میں آکر اعلان کرے کہ وہ خطے کے امن کیلئے دونوں ملکوں کے عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے واقعی یہ مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے اور اس لئے ٹرمپ کی مدد چاہی ہے یا پھر وہ اس بات کو دبانے کیلئے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلمانوں پر ظلم و تشدد میں اضافہ اور پاکستان کیخلاف جارحانہ اقدامات میں اضافہ کر دے تاکہ ملکی و غیرملکی رائے عامہ کی توجہ بٹ جائے۔ امکان یہی ہے کہ مودی دوسرا راستہ اختیار کر سکتا ہے۔‘‘ میرے اندازے کی تصدیق ہو گئی ’’مودی نے دوسرا راستہ اختیار کرلیا۔اب صورت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 8 لاکھ فوج کی موجودگی کے باوجود مزید دس ہزار فوجیوں کو وہاں بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ ساتھ ہی بھارتی مسلمانوں پر ظلم و تشدد میں تیزی آگئی ہے جبکہ انکی زندگیاں پہلے ہی اجیرن تھیں۔ ایک پندرہ سالہ مسلمان کو ’’جے رام‘‘ کا نعرہ نہ لگانے پر اور ایک 65 سالہ مسلمان کو جو ریٹائرڈ فوجی کپتان ہے‘ لاٹھیاں مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جارہا ہے اس پر انسانیت کا درد رکھنے والے ہندو دانشورو بھی آواز اٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بھارت کے 49 دانشوروں اور فنکاروں نے مودی کے نام خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر سرعام تشدد کا سلسلہ بند کیا جائے۔ یہ افسوسناک ہے کہ ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ اقلیتوں کیلئے اعلان جنگ بن گیا ہے یہ نعرہ نہ لگانے والوں کو انتہاء پسند ہندو تشدد کرکے مار ڈالتے ہیں۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ بھارت کے امن پسند قوم کی حیثیت سے ہمیں سخت تشویش ہے کہ حالیہ چند ماہ سے مسلمانوں و دلت کمیونٹی کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ خط لکھنے والوں میں فلمساز شیام‘ بینگال‘ ایرناسین‘ موسیقار سبھامرر گال‘ تاریخ دان‘ رام چندر اگوا اور دیگر شامل ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ کالم میں نشاندہی کی گئی تھی کہ ٹرمپ کے بیان سے مودی داخلی طور پر جس سیاسی مشکل سے دوچار ہوا ہے‘ اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کیلئے وہ پاکستان کیخلاف جارحانہ اقدامات میں اضافے کریگا۔ چنانچہ اس نے یہ ہی راستہ اختیار کیا اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ زیادہ شدت کے ساتھ شروع کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں دانہ‘ شاہ کوٹ‘ دانیال‘ لیپہ وغیرہ میں 30 مکانات تباہ‘ بہت سے افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں‘ شدید زخمی جبکہ ایک 26 سالہ نوجوان نعمان احمد شہید ہوگیا۔ پاک فوج کی جوابی کارروائی سے بھارت کی کئی پوسٹیں تباہ اور تین فوجی واصل جہنم ہوگئے۔ آنیوالے دنوں میں بھارتی جارحیت کا سلسلہ مزید تیز ہوگا اور بھارت میں مودی کے حوالے سے ٹرمپ کے بیان پر اپوزیشن اسی معاملے کو جتنا زیادہ اچھالے گی کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں پر مظالم کی چکی زیادہ تیزی سے چلے گی۔ مقصد رائے عامہ کی توجہ دوسری جانب مبذول کرانا ہے۔ اسی اثناء میں بھارتی آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا ہے اس پر بھی اگرچہ بی جے پی کی حمایت کرنیوالے کشمیری رہنمائوں کی جانب سے بھی مخالفت سامنے آئی ہے اور کشمیری عوام کی مزاحمت بھی تیز ہوئی ہے۔ مگر اکھنڈ بھارت کا ایجنڈا رکھنے والی راشٹریا سیوک سنگھ اپنے سیاسی ونگ بی جے پی کے ذریعے ایسا کرنے پر مصر ہے۔ اسکے ساتھ ہی بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے بلوچستان اور وزیرستان کے علاقوں میں دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ادھر بھارت کو افغانستان میں کردار ختم ہونے کی شدید جھنجھلاہٹ بھی ہے۔ اس لئے مجھے خدشہ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ محدود پیمانے پر جنگ کی آگ بھی بھڑکا سکتا ہے۔