معاشی پالیسیاں اور فاقہ کش عوام
وزیراعظم جناب عمران خان ابھی تک ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پر مبارکبادیں وصول کر رہے ہیں۔ امریکی دورے کا نشہ ہنوز ہرن نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں البتہ انہوں نے اچانک نان اور روٹی کی مہنگائی کا نوٹس لیا صرف نوٹس اور حکم دیا کہ ان کی پرانی قیمتیں واپس لائی جائیں۔ اب بھلا انہیں کون بتائے کہ بادشاہو اس ملک میں جب قیمت چڑھتی ہے تو وہ اترنے کیلئے نہیں ہوتی۔ ایک روز گزر گئے کیا مجال ہے جو کسی نانبائی نے اس حکم پر عمل کیا ہو۔ سو پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ناجائز منافع کمانے والے دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ مارکیٹ سے لیکر عام پرچون فروش تک غریبوں کی چمڑی اتارنے میں مصروف ہے اور حکومتی کارندے کہہ رہے ہیں کہ بڑے شاپنگ مالز اور سٹورز پر چھاپے مارے جائیں یہ مہنگائی پیدا کرتے ہیں۔ اب کون ان عقل کے اندھوں کو بتائے کہ جناب کتنے فیصد لوگ ان بڑے سٹورز کا رخ کرتے ہیں۔ 95 فیصد سے زیادہ لوگ عام دکانداروں اور پرچون فروشوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ منڈی‘ مارکیٹ اور بازار پر قدغن لگائیں۔ ان منافع خوروں پر قابو پائیں۔ سرکاری ریٹ پر عمل نہ کرنے والوں کو موقع پر قید اور جرمانہ کریں تو بات بنے گی۔ ہر چیز سرکاری ریٹ سے کئی گنا زائد قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔ اوپر سے ٹیکسوں کی بھرمار الگ جان کھا رہی ہیں۔ یکم اگست یعنی آج سے خطرہ ہے کہ پٹرول مزید مہنگا ہو جائیگا۔ یہی خطرہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کی طرف سے بھی لاحق ہے۔پنجاب پاکستان کا سب سے زرخیز خطہ ہے۔ چاول‘ گنا‘ گندم‘ کپاس‘ سبزیاں‘ دالیں کیا کچھ یہاں نہیں اگتا۔ اسکے باوجود عالمی اداروں کی رپورٹ کیمطابق یہاں بھی ملک کے باقی حصوں کی طرح 40 فیصد بچے غذائی قلت اور کم وزنی کا شکار ہیں۔ ابھی تک لوگ سندھ میں کم عمری میں بچوں کی اموات بیماریوں اور غذائی قلت کا رونا رو رہے تھے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے جو ملک بیرون ملک کو اناج فروخت کرتا ہے وہاں خود فاقہ ہے۔ تو کیا یہ ملک کی ناکام معاشی پالیسی کی عکاسی نہیں۔ گودام اناج سے بھرے ہوئے ہیں مگر غریبوں کے گھر میں فاقے ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ کیا یہ ؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
والی حالت کا نقشہ نہیں ہے۔ جب اپنے پیٹ پر لات پڑتی ہے تو کوئی رعایت نہیں کرتا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا تو اس دیہی ماحول سے تعلق ہے۔ وزیراعظم کا تعلق چلیں ایلیٹ کلاس سے ہے۔ وہ ملک کے 75 فیصد دیہی عوام کے مسائل سے لاتعلق ہوں گے مگر وزیراعلیٰ پنجاب نے کیوں اس طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ صرف سب اچھا ہے آوازوں پر ہی کیوں کان دھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت معرکہ جسم و جاں کا مرحلہ درپیش ہے سرسبز و خوشحالی پنجاب کے غریب خودکشیاں کر رہے ہیں کسان اناج کو ترس رہے ہیں۔ یہ اسی سرسبز پنجاب کے بارے میں بھی ہے جہاں کے گھبرو جوان اور صحت مند تندرست بچے اس کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ نئی حکومت کو آئے ایک سال ہو گئے۔ وزیراعظم بھی آپکی کارکردگی کے معترف ہیں تو خدارا اس غذائی بحران سے نمٹنے کی بھی راہ نکالیں۔ ناقص پانی‘ خوراک اور دودھ کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ مہنگائی نے اچھا کھانے کی سکت چھین لی ہے۔ اور کس کس کا شکوہ کریں پنجاب میں ہسپتالوں سے مفت ادویات اور ٹیسٹ کی سہولت بھی ختم ہو گئی۔ اب پتہ چلا ہے تفریحی مقامات پر بھی داخلہ ٹکٹ پر لاگو ہو گا اور پارکنگ فیس بھی تو یہ غریب لوگ جائیں تو جائیں کہاں اب تو لگتا ہے ایک بار پھر مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے کی طرز پر لوگ
چھین کے لے گئے حکمران
روٹی‘ کپڑا اور مکان