• news

مریم، یوسف عباس 12 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے، کارکنوں پولیس میں ہاتھا پائی، پتھراؤ، لاٹھی چارج، متعدد زخمی

لاہور، راولپنڈی (اپنے سٹاف رپورٹر سے، ایجنسیاں) احتساب عدالت نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم نواز اور یوسف عباس کو 12 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔ مریم نواز اور یوسف عباس کو سخت سکیورٹی میں پیش کیا گیا۔ مریم نواز کے کمرہ عدالت میں پیش ہوتے ہی بعض افراد نے نعرے بازی کی اور بعض نے سیلفیاں لینا شروع کر دیں۔ جج نے شور شرابہ کرنے اور سیلفیاں لینے پر سخت برہمی کا اظہارکیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے مریم نواز اور یوسف عباس کے پندرہ روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ مریم نواز کے وکیل نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی۔ مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ نیب نے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کرانا چاہے میں نے انکار کر دیا۔ نیب بلاجواز ایسا کیس بنانا چاہتا ہے جس میں میرے دادا نے اپنے ہاتھ سے کمائی کر کے سرمایہ لگایا۔ کمرہ عدالت میں مریم، حمزہ شہباز، کیپٹن صفدر اور جنید صفدر آپس میں باتیں کرتے رہے۔ عدالت کے باہر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے اور اینٹی رائٹ فورس نے پتھراؤ سے بچنے کے لئے حفاظتی شیلڈز کو ڈھال بنائے رکھا۔ عدالت نے ن لیگی وکلاء کو تمیز کا مظاہرہ کرنے کی تنبیہ کی۔ احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر کمرہ عدالت میں مریم نواز سے ان کے بیٹے جنید نے بھی ملاقات کی۔ حمزہ شہباز اور مریم نواز کی کمرہ عدالت میں ملاقات ہوئی۔ حمزہ شہباز نے مریم نواز کے سرپر شفقت سے ہاتھ رکھا اور دونوں نے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی۔ قبل ازیں پیشی پر عدالت لائے جانے پر کیپٹن (ر) محمد صفدر نے مریم نواز کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر وکلاء اور کارکنوں کے نعروں کا جواب دیا۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا مریم نواز کے خلاف انکوئری کب شروع کی گئی۔ جج نے استفسار کیا کہ پانامہ والے کیس میں کیا ہوا تھا جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کے صرف تین مخصوص ریفرنسز تھے جو نواز شریف کے حوالے سے تھے اور ان میں چوہدری شوگر ملز شامل نہ تھی۔ عدالت نے دریافت کیا کہ جب پاناما کیس سامنے آیا تو وہاں مریم نواز کے شئیرز کی بات کیوں نہیں آئی۔ نیب وکیل نے بتایا کہ مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں بات آئی تھی۔ مریم نواز کی پیشی کے دوران مسلم لیگ ن کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔ کارکنوں نے پولیس پر پتھرائو کیا جس سے متعدد پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوئے۔ جوابی کارروائی میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس سے مسلم لیگ ن کے کارکن بھی زخمی ہوئے۔ ہنگامہ آرائی اس وقت شروع ہوئی جب کارکنوں نے زبردستی عدالت میں جانے کی کوشش کی اور پولیس کی جانب سے لگائی جانے والی رکاوٹوں کو ہٹانا شروع کر دیا۔ ہنگامہ آرائی کے دوران لیگی کارکن سخت نعرے بازی کرتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سیکرٹری اطلاعات و رکن اسمبلی عظمیٰ بخاری نے عدالت کی جانب جانے سے روکنے پر مرد پولیس اہلکار کو تھپڑمار دیا۔ عظمیٰ بخاری بعد ازاں دھکم پیل سے بے ہوش ہوگئیں جنہیں ریسکیو 1122 نے فوری طبی امداد کیلئے ہسپتال منتقل کیا۔ راولپنڈی میں مریم نواز کی گرفتاری کیخلاف لیگی قائدین اور کارکنوں نے شدید احتجاج کیا جس کی قیادت مسلم لیگ ن میٹروپولیٹن راولپنڈی کے صدر سابق میئر سردار نسیم خان کررہے تھے جس میں مسلم لیگ ن کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب، حاجی پرویز خان، سینیٹر سعدیہ عباسی اور دیگر نے شرکت کی۔ مظاہرین نے مریم نواز کی گرفتاری کی شدید مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ مریم نواز، نوازشریف، آصف زرداری، فریال تالپور، شاہد خاقان، مفتاح اسماعیل،ر انا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، سلمان رفیق،آ غا سراج کو فوری رہا کیا جائے۔ احتساب عدالت میں پیشی کے وقت بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کا اس سوال پر کہ وہ ہی آخر ہدف کیوں ہیں اور ’لوگوں‘ کو کیوں اچھی نہیں لگتیں، کہنا تھا کہ ’کیونکہ میں جوتے پالش نہیں کرتی اور میں اس کو برا سمجھتی ہوں۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ جو عوام کے نمائندے ہوتے ہیں ان کی عزت کی جانی چاہیے۔‘ ’حکومت چلانا عوام کے نمائندوں کا کام ہے۔ آئینی اور قانونی دائرے سے جو بھی باہر نکلے گا میں اس کے خلاف آواز اٹھاؤں گی۔ ظاہر ہے باقیوں کے مفاد ہیں جو اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے کسی نہ کسی مفاد کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو اس کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ جو سامنے چہرہ ہے بھیانک وہ عمران خان کا ہے۔‘ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ انہوں نے اپنے ساتھ کچھ ہونے کی صورت میں ریکارڈنگز سامنے لانے کا جو اعلان کیا تھا اس پر کب عمل ہو گا، مریم نواز نے کہا کہ ’وہ میں سوچوں گی۔ میرا مقصد ریکارڈنگ ریلیز کرنے کا یہ تھا کہ میں میاں صاحب کی بے گناہی ثابت کر سکوں۔‘ ’میری دعا ہے کہ انہیں منظر عام پر نہ لانا پڑے۔‘ مریم نواز کا کہنا تھا کہ ان کے پاس جو ریکارڈنگز موجود ہیں وہ ’موجودہ ججوں کی ہیں، اور لوگوں کی بھی ہیں اور اداروں کی بھی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن