مقبوضہ کشمیر: کرفیو توڑ کر کشمیری پھر سڑکوں پر مساجد کو بدستور تالے‘ نماز جمعہ نہ ہو سکی
سری نگر (نوائے وقت رپورٹ، کے پی آئی) مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون جاری ہے۔ رابطوں کے ذرائع بدستور بند ہیں، مسلسل 12 ویں روز کرفیو سمیت دیگر پابندیاں بھی برقرار ہیں۔ قابض انتظامیہ نے عید کی نماز کے بعد جمعہ کی نماز پر بھی پابندیاں لگا دیں۔ کھانے پینے کی اشیاء اور جان بچانے والی ادویات کی قلت سے انسانی بحران پیدا ہوگیا۔ بھارتی جبر کیخلاف سری نگر میں کشمیری بندشیں توڑ کر سڑکوں پر نکل آئے ۔ مودی حکومت کیخلاف اور آزادی کے حق میں نعرے لگاتے بچوں اور بوڑھی عورتوں نے بھی بھارتی پابندیوں کو روند ڈالا۔ مظالم کیخلاف غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کے مذموم بھارتی اقدام کیخلاف کشمیریوں کے احتجاج کو روکنے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں جمعہ کو بارھویں روز بھی سخت کرفیو اور دیگر پابندیوںکا سلسلہ جاری رہا۔ ادویات اور خوراک کی قلت ہو گئی، سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں مسلسل جاری ہیں۔ قابض انتظامیہ نے سخت کرفیو کو برقرار رکھنے کیلئے مقبوضہ وادی کے اطراف میں بڑی تعداد میں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار تعینات کر رکھے ہیں جس سے جنت نظیر وادی کشمیریوں کے لیے قید خانے میں تبدیل ہوگئی ہے۔جمعہ کو سرینگر سمیت وادی کے دیگر مقامات پر سیکورٹی مزید سخت کردی گئی بالخصوص جامع مساجد میں فوج کا پہرہ مزید بڑھا دیا گیا ،سرینگر کی تاریخی جامع مسجد ،درگا ہ حضرت بل اور بڑی جامع مساجد میں تالے لگادئیے گئے ہیں تاکہ کشمیری مسلمان نمازجمعہ ادا نہ کرسکیں۔ اب اشیائے خورونوش کا سٹاک بھی ختم ہوگیا ہے جب کہ مریض دوائوں سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔دوسری جانب دیواروں پر گو انڈیا گو بیک اور ہم کیا چاہتے آزادی ،کے نعرے لکھے ہیں۔بھارتی اقدام پر غم و غصے میں ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس تاحال بند ہے، جس کی وجہ سے آن لائن اخبارات بھی اپ ڈیٹ نہ کئے جا سکے۔بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے،بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھائونی میں تبدیل کررکھا ہے۔آزادی کے متوالوں نے جگہ جگہ "وی وانٹ فریڈم" کے نعرے لکھ دیئے۔ آزادی اور پاکستان بھی دیواروں پر لکھا ہوا نظر آیا۔ مقبوضہ وادی عملی طور پر بڑی جیل کا منظر پیش کر رہی ہے جہاں عوام گھروں میں بند ناکردہ جرم کی سزا کاٹنے پر مجبور ہیں۔علاو ہ ازیں مقبوضہ کشمیرمیںحریت تنظیموںنے سول سوسائٹی اور وکلاء ، صحافیوں، تاجروں، ٹرانسپورٹروںاور ملازمین کی انجمنوں کے اشتراک سے کشمیری قوم ، وادی کشمیر، جموںاور کارگل کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل کر اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حق میں آواز بلند کریں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حریت تنظیموںنے سرینگر میں جاری ایک مشترکہ بیان میں کشمیری عوام پر زوردیا ہے کہ وہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل اور متنازعہ علاقے کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے بھارت کے مذموم عزائم کے خلاف احتجاج کریں۔ہندو بنیاد پرستوں کو اپنے وطن میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گی ۔ انہوںنے مزیدکہاکہ کشمیری اپنی مائوں ، بہنوںاور بیٹیوں کو ہندو انتہا پسندوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ وادی کے اندر حراست میں لیے گئے افراد کیلئے جگہ کم پڑ گئی۔ ذاتی املاک قید خانوں میں بدل دی گئیں۔ قابض فوج نے کئی مقامات پر کشمیریوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک دیا۔ 900 کے قریب سیاستدان ابھی بھی جیل میں بند ہیں۔ ان سیاستدانوں میں بھارت کے حمایت یافتہ عمر عبد اللہ، فاروق عبد اللہ، محبوبہ مفتی،انجینئر عبدالرشید، ساجد لون، شاہ فیصل سمیت دیگر شامل ہیں۔شہری، حریت رہنما، سول سوسائٹی کے ارکان، صحافی، تاجر، وکیل سمیت دیگر بڑی تعداد نے کرفیو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ ان دیواروں پرآزادی اور پاکستان بھی لکھا ہوا نظر ا?یا۔ وادی بڑے جیل کا منظر پیش کر رہی ہے جہاں عوام گھروں میں بند ناکردہ جرم کی سزا کاٹنے پر مجبور ہیں۔بھارتی قابض فوج نے ایک اور صحافی کو گرفتار کر لیا ہے۔ ترال سے 26 سالہ صحافی عرفان امین ملک کو پکڑا گیا۔ وہ سرینگر سے تعلق رکھنے والے انگلش اخبار میں کام کرتے ہیں۔عرفان امین ملک کے والد محمد امین ملک کا کہنا ہے کہ مجھے اپنے بیٹے سے ملنے نہیں دیا جا رہا جبکہ والدہ کا کہنا تھا کہ بھارتی قابض فوجی رات کے اندھیرے میں دیوار پھلانگ کرا ئے اور میرے بیٹے کو گرفتار کر کے لے گئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 560 کشمیریوں کو عارضی حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے، کچھ افراد کو شیر کشمیرانٹرنیشنل کنونشن سینٹر اور دیگر کو مختلف علاقوں میں عارضی حراست خانوں میں رکھا گیا ہے۔