مقبوضہ کشمیر: مظاہرے جاری‘ شیلنگ‘ متعدد زخمی: سلامتی کونسل اجلاس پر کشمیری مسرور
سری نگر(نوائے وقت رپورٹ، بی بی سی) مقبوضہ کشمیر میں ہفتے کو13 ویں روز بھی مسلسل کرفیو کی وجہ سے ریاستی عوام محصور رہے ۔ریاستی عوام خوراک، ادویات اور دیگر ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں۔بھارت نے مقبوضہ وادی کو فوجی چھائونی میں تبدیل کر کے ہزاروں بھارتی فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ کرفیو کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں ادویات کا سٹاک بھی ختم ہو گیا ہے جس کے پیش نظر دکانداروں نے کشمیریوں کو دہائیاں دینا شروع کر دی ہیں کہ بیمار نہ ہوں۔ اس حوالے سے ایک میڈیکل سٹور کے مالک کا کہنا تھا کہ میں بے بس ہوں اور اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ بیمار مت ہونا کیونکہ کرفیو کے باعث سٹاک ختم ہو گیا ہے۔ پابندیوں کے باوجود احتجاجی مظاہرے ہوئے، مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پیلٹ چلائے اور آنسو گیس کے گولے داغے گئے جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ مظاہرین نے قابض بھارتی فورسز کی طرف پتھر پھینکے۔وادی کی گلیاں اور سڑکیں سنسان ہو گئیں۔ غذائی بحران سنگین ہو گیا جبکہ گھروں میں قید کشمیریوں کیلئے ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل ہو گیا۔ مسلسل کرفیو سے کئی افراد گھروں میں بیمار پڑے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کیلئے دوا اور ڈاکٹر کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہیں۔رواں سال اب تک 59 انٹرنیٹ بلیک آئوٹ ہو چکے ہیں جو بھارت میں کہیں بھی ہونے والے بلیک آئوٹ سے زیادہ ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں بہت سے لوکل کیبل چینلز اور علاقائی چینلز پر کشمیر سے متعلق لوگوں کے پیغامات نشر کئے جا رہے ہیں۔ ان پیغامات کے ذریعے کچھ لوگ وادی میں اپنے پیاروں کی خیریت جاننا چاہتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی خیریت سے آگاہ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت نے کشمیر میں گزشتہ دو ہفتوں سے جاری سکیورٹی کریک ڈائون اور سخت ترین پابندیوں میں بتدریج نرمی کا آغاز کر دیا ہے اور وہاں لینڈ لائن، موبائل فون سروس بحال کرنا شروع کر دی ہے۔ ایڈمنسٹریٹر شاہد چوہدری کے مطابق پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں اور ہفتے کے دن زیادہ تر علاقوں میں حکومتی دفاتر کھل گئے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس پر کشمیری مسرور ہیں۔ ایک پریس ریلیز کے ذریعے حکومتی ترجمان نے بتایا کہ وادی میں مختلف پابندیاں آہستہ آہستہ ختم کی جا رہی ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے حکومتی ترجمان اور پرنسپل سیکریٹری روحت کنسال نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ 35 پولیس سٹیشنز سے رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں اور مختلف علاقوں میں ٹیلی فون لینڈ لائن بحال کر دی گئی ہے۔ترجمان نے دعویٰ کیا کہ 17 ٹیلی فون ایکسچینج بحال کر دیئے گئے ہیں اور آج اتوار کی شام تک تمام نیٹ ورک بحال کر دیئے جائیں گے۔انہوں نے مزید بتایا کہ جموں ڈویژن میں لینڈ لائن سروس معمول کے مطابق کام کر رہی ہے اور 5 اضلاع میں موبائل فون سروس بھی بحال کر دی گئی ہے۔بی بی سی کے نامہ نگاروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کشمیر کے چند علاقوں میں لینڈ لائن فون سروس اب استعمال کی جا سکتی ہے۔ تاہم وادی میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس اب بھی معطل ہے اور صرف کچھ علاقوں تک محدود ہے۔انہوں نے بتایا کہ سڑکوں پر معمول کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات ایک مثبت نشانی ہے اور اطلاعات کے مطابق ایسا دیہی علاقوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔سکول، دفاتر اور دیگر تعلیمی اداروں کی بندش کے حوالے سے ترجمان کا کہنا تھا کہ پرائمری سطح کے سکول اور تمام سرکاری دفاتر کل سے کھول دیئے جائیں گے۔البتہ صورہ قریبی علاقوں سے کہیں کہیں چھرے فائر کرنے اور آنسو گیس فائر کرنے کی بھی آواز سنائی دے رہی تھی جبکہ چند مقامات پر پاکستانی گانوں کی آواز آ رہی تھی جو کشمیر کی آزادی کے حوالے سے ترانے تھے۔بی بی سی کے نمائندے نے بتایا کہ چند مقامات پر لاؤڈ سپیکر سے لوگوں کو مظاہروں میں شرکت کرنے کے پیغامات دیئے جا رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ حالات ایسے نظر آ رہے ہیں جہاں لوگوں کے جذبات ڈر و خوف کے بجائے غصے میں تبدیل ہو رہے ہیں اور اس میں صرف اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیر سے واپسی پر سول سوسائٹی کے وفد کو پریس کلب آف انڈیا میں ویڈیوز تصاویر دکھانے کی اجازت نہ ملی۔ پریس کانفرنس میں موجود آئی جی کشمیر پولیس سوائم پرکاش پانی نے کہا کہ انتظامیہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے جس کے پیش نظر آہستہ آہستہ رکاوٹیں ہٹائی جائیں گی۔ آئی جی کشمیر نے کہا کہ شمالی جنوبی اور مرکزی کشمیر کے 35 پولیس سٹیشنز سے رکاوٹیں ہٹائی جاچکی ہیں۔ ایک روز قبل سرینگر میں موجود بی بی سی کے نمائندے عامر پیرزادہ نے جمعہ کو شہر کے علاقے صورہ کا دورہ کیا جہاں گزشتہ جمعہ کو بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے اور مظاہرین پر حکام کی جانب چھرے فائر کئے گئے جس سے کئی افراد زخمی ہوگئے تھے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کواقلیت میں بدلنے کے منصوبے پر کام شروع کردیا۔ جموں میں ہندو خاندان کو بھارتی شہریت دینے کا ڈرامہ رچا کر جموں کی تحصیل سامبا میں بسا دیا۔ غیرملکی خبر ایجنسی نے صوبائی تحصیل سامبا میں بسائے گئے خاندان کی ویڈیو جاری کردی۔ بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو خاندان 1947 میں سرحد پار سے جموں آیا تھا۔