• news

کشمیریوں اور بھارت میں خلیج بڑھے گی‘ وسیع پیمانے پر تشدد کا خدشہ ہے: امریکی میڈیا

واشنگٹن (کے پی آئی، صباح نیوز) بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھادیئے۔ معتبر امریکی جریدے فارن پالیسی نے کہا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے بعد ناصرف کشمیریوں اور باقی ہندوستان کے درمیان خلیج بڑھے گی بلکہ بڑے پیمانے پر تشدد کا بھی خدشہ ہے۔ فارن پالیسی میگزین نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہ بات با لکل واضح محسوس ہوتی ہے کہ آرٹیکل 35اے کا خاتمہ مسلم اکثریت والی اس ریاست کی نوعیت کو تبدیل کر دے گا ۔ آرٹیکل 35اے کے تحت غیر کشمیری باشندے مقبوضہ کشمیر میں مالکانہ حقوق پر زمین نہیں خرید سکتے لیکن اب ممکنہ طور پر بھارتی حکومت ہندوئوں کو کشمیر میں آباد کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی تقریباً پانچ لاکھ بھارتی فوجی موجود ہیں جو فوری طورپر وہاں زمینیں خرید سکتے ہیں اور مستقبل میں یہ عمل بڑے پیمانے پر ہو سکتا ہے ۔ نئے انتظامات کے تحت بھارتی حکومت ہندوئوں کے لئے نئی بستیاں بسا سکتی ہے جن کے اپنے شاپنگ مالز، اسکولز اور ہسپتال ہوں گے ۔ رپورٹ کے مطابق مقامی پارٹیاں اور کارکن بھارت کے ان عزائم کا پہلے بھی مقابلہ کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے مگر تبدیل ہوتی صورتحال میں کوئی ایک حملہ بھی فرقہ وارانہ فسادات کی آڑ میں کشمیری مسلمانوں پر تباہ کن اثرات مرتب کر سکتا ہے ۔ جب پابندیاں ختم ہوں گی تو دنیا غالباً ایک یکسر مختلف کشمیر دیکھے گی۔ امریکی میڈیا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس کی ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میں امن و امان کو برقرار رکھنا اس عالمی فورم کی ذمہ داری ہے جس میں کشمیری عوام کے غموں کا مداوا کرنا اور پاکستان بھارت تنا ئوکو ختم کرنا بھی شامل ہے۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اگر دونوں ایٹمی صلاحیت کے حامل ممالک کے درمیان کشیدگی انتہا پر ہے تو سلامتی کونسل کو دونوں کے درمیان آنا چاہیے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس مقام پر یہ کوئی ایکشن کرنے کے بجائے بات چیت پر رضامند ہیں۔ سی این این کی جانب سے سوال اٹھایا گیا کہ آخر کب تک جنوبی ایشیا کے لوگ کشمیر میں امن قائم کرنے کے لیے سلامتی کونسل کے کردار کا انتظار کرتے رہیں گے؟ رپورٹ میں سلامتی کونسل میں 50 سال بعد مسئلہ کشمیر پر مشاورت کا حوالہ دیتے ہوئے مزید پوچھا گیا کہ کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟ پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرہ مشاورتی اجلاس منعقد ہوا تھا، تاہم اجلاس کے بعد کشمیر کے معاملے پر نہ ہی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اور نہ ہی کشمیر کے معاملے پر خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا گیا۔سی این این کی جانب لکھا گیا کہ یو این ایس سی کے مستقل ممبران میں سے 2 اراکین نے کشمیر کے معاملے پر بھارت کے یکطرفہ اقدام کے خلاف مذمتی بیان جاری کرنے سے روک دیا تھا۔ رپورٹ میں امریکی سفارتکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ امریکا، جرمنی اور فرانس ان ممالک میں شامل تھے، اور ان کا موقف تھا کہ اگر اس معاملے میں کوئی اعلامیہ جاری کیا گیا تو مستقبل میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ باہمی بات چیت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ تاہم ان ممالک کیا اولین ترجیح اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان بات چیت کی ہے۔
سرینگر ( نوائے وقت رپورٹ)برطانوی میڈیا نے کہا ہے کہ مودی حکومت نے بھارت کے نازک وفاقی توازن کو خراب کر دیا ہے۔ مصنفہ نویتا چڈھاکا کہنا ہے کہ مودی کے اقدام سے بھارت کا وفاقی ڈھانچہ کمزور ہو رہا ہے۔ جمہوری اصولوں کی پامالی ہو رہی ہے۔ جو لوگ جشن منانے میں مصروف ہیں انہیں اس کے دور رس اثرات کا کوئی خیال نہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ بی جے پی کے خلاف مزاحمت بالکل دم توڑ گئی ہے۔ معاشرہ‘ ذرائع ابلاغ‘ علاقائی جماعتیں یا تو خاموش ہیں یا نحیف انداز میں آواز اٹھا رہی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن