• news
  • image

آج نہیں تو کل!!!

ہم چہروں کو بدلنے میں کمال رکھتے ہیں، شیشے صاف کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، باتیں بنانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں، سبز باغ دکھانے میں نہایت پر اعتماد واقع ہوتے ہیں، باتیں بنانا کوئی ہم سے سیکھے، باتیں بدلنا کوئی ہم سے سیکھے، سمت بدلنے کا ہنر ہم سے بہتر کون جانتا ہے، وفاداریاں بدلنے کا سلیقہ بھی ہم سے بہتر ہی کسی کو آتا ہو گا۔ کتنے ہی گورے آئے اور چلے گئے، وہ جو بدلنے آئے تھے، ہم جیسے ہو کر نکلے، وہ جو پیشہ وارانہ بنیادوں پر چلانے کی باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے وہ بھی صرف معاہدہ مکمل کرنے کو کامیابی سمجھنے لگے۔ ایسی صلاحیتیں ہم نے خوب پائی ہیں۔
زیادہ وقت نہیں گذرا انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سابق سربراہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے۔ کہا گیا کہ مسیحا آ گیا ہے، سب ٹھیک ہو جائے، کمال کا پروفیشنل ہے، سادگی پسند ہے، پاکستان سے کچھ نہیں لے گا، یہ تو ملک کی خدمت کرنے آیا ہے، ایسا نظام لائے گا کہ دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی، ایسی گورننس ہو گی کہ دنیا مثال دے گی، آئین اور قانون کی بالادستی ہو گی، فیصلے میرٹ پر ہوں گے، حق دار کو حق ملے گا، سفارش کا خاتمہ ہو گا، اہل افراد سامنے آئیں گے، فیصلے چہرے دیکھ کر نہیں کیے جائیں گے، اللہ اللہ ایسے ایسے جملے سنے کہ دن میں تارے نظر آنے لگے، یہ بھی سنا گیا کہ ایسا کارپوریٹ ماحول ہو گا کہ باہر سے لوگ سیکھنے آئیں گے۔ لوگ بہت خوش ہوئے، تالیاں بجائیں، مبارک باد پیش کی گئی، اچھے خیالات کا تبادلہ ہوا، امیدیں لگائی گئیں، توقعات کا اضافہ ہوا، لوگ انتظار میں رہے کہ کب موصوف کب حرکت کریں گے، کچھ کریں گے، کچھ ہلچل ہو گی پھر کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے بتایا جاتا ہے کہ کرکٹ بورڈ میں اختیار کا مرکز چیئرمین کو نہیں ہونا چاہیے۔ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں تو معاملات بہتر انداز میں چلائے جا سکتے ہیں، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ چیئرمین طاقت کا مرکز ہو، سو اختیارات کی منتقلی کے نام پر انگلینڈ سے ایک اور باصلاحیت کا پاکستان کے مستند اور تصدیق شدہ شفاف روایتی انداز میں انتخاب ہوتا ہے، پھر واہ واہ کی صدائیں آتی ہیں، تعریف و توصیف کے سلسلے شروع ہوتے ہیں، کیا خوش کن منظر ہوتا ہے، سب اچھا اچھا نظر آنے لگتا ہے۔ ملکی کرکٹ کی ترقی کا نیا باب شروع ہونے کے انتظار شدت اختیار کر جاتا ہے۔ کہانی میں ایک اور دلچسپ موڑ آتا ہے اپنے ہی معزز اراکین بغاوت کرتے ہیں، امپورٹڈ اور انتہائی قابل احترام معزز مینجنگ ڈائریکٹر کی تقرری کو اکثریتی اراکین نے دستخطوں کے ساتھ کالعدم قرار دے دیا پھر کیا تھا، بھگدڑ مچی، در و دیوار ہل کر رہ گئے۔ پتہ چلا کہ ارے میاں یہ تو دنیا ہی الگ ہے، بتایا تو گیا تھا کہ یہ بت ہیں، کچھ نہیں بولتے، کچھ نہیں پوچھتے بس چپ چاپ دستخط کیے دیتے ہیں لیکن یہاں تو سب الٹ ہے۔ یہ دور دراز علاقوں سے آئے بتوں کو زبان کس نے دے دی۔ یہ اتنے خودسر ہو گئے کہ صاحب بہادر کو ہی گھر بھیجنے پر تل گئے۔ پھر کیا تھا، حساب کتاب لگایا گیا، جمع تفریق کی گئی اور تصدیق شدہ روایتی سیاسی طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایک ایک کر کے سب کو ساتھ ملا کر دوبارہ بت کا درجہ دے کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے گئے۔ پھر کچھ لوگوں کو برطرف کر کے جمہوری عمل اور شفافیت کے نئے اور سنہرے دور کے آغاز کیا گیا۔ اس موقع پر پھر یہ خوشخبری سنائی گئی کہ ہدف کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ منزل کے قریب ہیں، بہت جلد جمہوری عمل،نکھرا ہوا کارپوریٹ کلچر اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوتے نظر آئیں گے۔ اسی دوران سادگی مہم کے تحت نئی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں، گھروں کی آرائش کے بل منظور کروائے جاتے ہیں، سادگی مہم کی تصدیق کے لیے دس، بارہ، بیس لاکھ یا اس سے زائد ماہانہ تنخواہوں پر پیشہ وروں کا خدمات کا سرکاری اعلان بھی ہوتا ہے۔ ان تاریخی لمحات میں لکھنے، دیکھنے،سننے اور پڑھنے والوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا کہ اب تو حقیقی تبدیلی کا سفر شروع ہو چکا اب اس تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ پھر معلوم ہوتا ہے کہ چند اعلی دماغ ایک نئے اور جمہوری آئین اور کرکٹ کے نئے بنیادی ڈھانچے پر دن رات کام کر رہے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ کھیل سے متعلقہ افراد سہانے مستقبل کو چند قدموں کے فاصلے پر دیکھ کر خوشی خوشی قرآن خوانی اور اجتماعی دعائیہ تقاریب کا اہتمام کرنے لگے۔ ایسے نازک لمحات میں کچھ بااثر اتنی سرعت اور پھرت کے ساتھ انگلینڈ جانے لگے کہ گمان ہونے لگا کہ فاضلہ سمٹ گیا ہے، راستے چھوٹے ہو گئے ہیں اور اچھا سا فلاحی پیکج دستی ہی برطانیہ سے آئے گا۔ پھر آئین منظور ہو جاتا ہے۔ ہزاروں کرکٹرز کے روزگار کو معیاری کرکٹ اور سادگی کے نام پر ختم کرنے کا سرکاری حکمنامہ جاری کر دیا جاتا ہے۔ جمہوریت، شفافیت اور تبدیلی کے نام پر نامزد افراد کو اکثریت دے کر منتخب افراد کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
اختیارات کی منتقلی کے نام پر ایک امپورٹڈ کو کرکٹ کا سکندر اعظم بنا دیا جاتا ہے، وہ جو اختیارات منتقل کرنے آئے تھے اتنا وزنی کام صرف ایک ہی شخص تک منتقل کر کے ان کی ہمت جواب دے گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ اختیارات دیگر کمروں اور افسران تک پہنچاتے بہتر یہی سمجھا کہ کمرہ بدلنے اور ایک کرسی کے اضافے سے بھی یہ جمہوری عمل عمدہ و و احسن و پاکیزہ و قانونی طریقے سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ سو یہ مہم یہیں ختم کرنا ملکی کرکٹ کے مفاد میں ہے۔ شفافیت اور سفارش کے نام پر پانچ چھ دشمنوں کو برطرف کر کے وہ وعدہ بھی پورا کر دیا گیا۔ نامزدگی سے اعلی ترین عہدہ حاصل کرنے والوں نے اسی جمہوری انداز میں بورڈ کو نامزدگیوں کے سپرد کر کے جمہوریت کی روح کو تسکین پہنچانے کا فریضہ بھی بخوبی انجام دے دیا۔ سنٹرل کنٹریکٹ میں شامل کرکٹرز کے پیسے بڑھا کر اور اور چند ماہر پیشہ وروں کو لاکھوں ماہانہ دے کر حقداروں تک ان کا حق پہنچانے کا وعدہ بھی نبھا دیا۔ آئے ہائے ایسا جمہوری نظام ہے، ایسا جمہوری آئین ہے، اختیارات کی منتقلی کا ایسا شاندار فلسفہ ہے کہ روح کو تسکین مل چکی ہے۔ ہمیں اور کیا چاہیے بھلا اس سے زیادہ بھی پیشہ ور کوئی ہو گا۔ اس شاندار کارکردگی پر تمغہ امتیاز سے کم تو نہیں ملنا چاہیے اور اگر یہ اعزاز نہ ملا تو عوامی جذبات کی توہین ہو گی!!!!!
ابھی یہ لکھ رہے تھے کہ خیال آیا کہ امیدوں اور توقعات کا کیا بنے گا اس پر ایک اور خیال آیا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے امید کا ہونا ضروری ہے۔ پھر خیال آیا امید تو ہے کہ پھر وہی منظر دہرایا جائے گا جہاں ہر طرف ہریالی ہو گی، وعدے ہوں گے، قہقہے ہوں گے، کھلے کھلے چہرے ہوں گے، پروفیشنل ازم ہو گا۔ ایک نئے دور کا آغاز ہو گا آج نہیں تو کل!!!!

epaper

ای پیپر-دی نیشن