جانے کس جرم کی پائی ہے سزا
خدمت کی سیاست
خلوت بھی، غور و فکر کرنے والوں کے لئے زندگی کا منفرد تجربہ ہوتی ہے۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا ایک صوفیانہ شعر یاد آیا
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
نیب کی ’’مہربانی‘‘ سے مجھے اپنی مصروف زندگی میں ایک بار پھر خلوت نصیب ہوگئی تھی۔ یہ میری تیسری حراست تھی۔ پہلی حراست محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں، اڈیالہ جیل میں تھی، دوسری حراست جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کے بعد 12 اکتوبر 1999 سے 10 دسمبر 2000 تک رہی (جس کے بعد ہم جلا وطن ہوگئے) اور تیسری حراست 5 اکتوبر 2018 سے شروع ہوئی جب مجھے طلب تو ’’صاف پانی کیس‘‘ میں کیا گیا تھا اور گرفتاری ’’آشیانہ کیس‘‘ میں ڈال دی گئی۔ یہ مدت 130 دن پر محیط تھی۔ ان میں 64 دن نیب کے براہ راست ’’قبضے میں‘‘ اور باقی کوٹ لکھپت جیل میں بیتے۔ اس میں سپیکر صاحب کے پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے دن بھی شامل ہیں۔ 14 فروری 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے میری درخواست ضمانت منظور کرلی جس کے بعد سے تا حال رہائی جاری ہے۔
خلوت کے روز و شب انسان کو اپنے داخل میں جھانکنے کا موقع مہیا کرتے ہیں (انگریزی میں Soul Searching کہہ لیں)۔ اس میں انسان اپنی خوبیوں، خامیوں، اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں پر نظر ڈالتا ہے۔ حراست کے ان ایام میں، میں بھی اس تجربے سے گزرا اور سوچا کہ کیوں نہ اپنے عوام کو بھی اپنے ان احساسات و جذبات میں شریک کر لو ں۔ آج کی یہ کاوش اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ اس میں لازم نہیں کہ واقعات اسی ترتیب سے بیان ہوں جس ترتیب سے یہ وقوع پذیر ہوئے تھے۔
میں 2013ء کی انتخابی مہم سے شروع کرتا ہوں تب ملک جن مسائل سے دو چار تھا، ان میں بجلی کا بحران سنگین تر تھا۔ دیہات اور قصبات تو کجا شہروں میں بھی بارہ بارہ، چودہ چودہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ رہتی۔ یہ بلا مبالغہ قیامت کے روز و شب تھے۔ دن کا سکون اور رات کی نیند حرام ہو چکی تھی۔ صنعتیں بند ہو رہی تھیں۔ کاروبار ٹھپ ہو رہے تھے۔ احتجاجی مظاہرے روز کا معمول بن گئے تھے۔ عوام کو ان کے دکھ میں اپنی شرکت کا احساس دلانے کے لئے میں نے مینار پاکستان پر احتجاجی کیمپ بھی لگایا اور وہیں شدید گرمی میں سرکاری میٹنگز منعقد کرتا۔
2013 کی انتخابی مہم میںہمارے قائد میاں محمد نواز شریف کا قوم سے وعدہ تھا کہ وطن سے ان اندھیروں کو دور کرنا ان کی ترجیح اول ہوگی۔ 2018 کے الیکشن تک اندھیرے ختم ہو چکے ہونگے اور ملک روشنیوں سے جگمگا رہا ہوگا۔ یہ ایک عظیم چیلنج تھا۔ ہمالیہ سر کرنے کا دعویٰ، پتھروں سے چشمے نکالنے والی بات جس کے لئے فرہاد کا جنون اور عزم و ہمت کا تیشہ درکار تھا۔ میں فطرتاً کچھ ’’جلد باز‘‘ واقع ہوا ہوں (Man in Hurry)۔ چنانچہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے ایک ادھ بار چھ ماہ کی بات بھی کردی۔
مئی 2013 کے الیکشن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قوم نے مسلم لیگ (ن) پر تیسری بار اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ میاں نواز شریف (اور مجھ سمیت ان کے رفقا) کو قوم کے ساتھ کئے گئے وعدے یاد تھے۔ وہ اس کے لئے خود کو اپنے رب کے حضور بھی جواب دے سمجھتے تھے۔ چنانچہ اپنے بوٹوں کے تسمے ڈھیلے کرنے کی بجائے۔ ہم پہلے ہی روز نئے عزم کے ساتھ محو سفر ہوگئے۔ جون 2013 میں نئی حکومت نے حلف اٹھایا اور اگلے ہی ماہ (جولائی میں) وزیراعظم نواز شریف نے چین کا رخ کیا، چین جو ہمیشہ سے ہمارا قابل اعتماد دوست ہے (Tested Friend)۔ دکھ سکھ کی ہر گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔وزیراعظم کے اس وفد میں، میں بھی شامل تھا۔ چینی دوستوں سے مختلف مسائل پر کھل کر (اور سنجیدگی سے) تبادلہ خیال ہوا۔ ان میں CPEC کے تحت بجلی کے منصوبے بھی تھے۔
ستمبر 2014ء میں چین کے صدر جناب شی زنگ پنگ کو ان معاہدوں پر دستخط کے لئے پاکستان آنا تھا لیکن بد قسمتی کے کچھ دن باقی تھے۔ وفاقی دارالحکومت کے ڈی چوک میں دھرنا تھا۔ حکومت طاقت کے استعمال سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا تھی جس سے فائدہ اٹھا کر بلوائی پارلیمنٹ اور پرائم منسٹر ہائوس کے دروازے تک پہنچ گئے۔ یہاں تک کہ نیشنل براڈ کاسٹر، پاکستان ٹیلی ویژن کا ہیڈ کوارٹر بھی محفوظ نہ رہا۔ وفاقی دارالحکومت میں یہ دھرنا تماشہ چار ماہ (16 دسمبر کے سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور تک) جاری رہا۔ ستمبر 2014 کا صدر چین کا دورہ ملتوی ہوگیا جس میںCPEC کے منصوبوں پر دستخط ہونا تھے۔ یاد آیا، اس دورے کے التوا کی خبریں آئیں تو دھرنا باز لیڈر کا بیان تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے، دورے کا کوئی پروگرام تھا ہی نہیں، جس کے جواب میں چینی سفارتخانے نے باقاعدہ پریس ریلیز جاری کی کہ چینی صدر کا دورہ دھرنوں کے باعث ملتوی ہوا۔ اس پر کنٹینر سے کہا گیا، وہ ہم پر کوئی احسان کرنے نہیں بلکہ بھاری سود پر قرضے دینے آرہے تھے۔ غیر ذمہ دار لیڈر کو دوست ملکوں کے مابین احترام کے تقاضوں کو پامال کرنے میں بھی کوئی عار نہ تھی۔
اپریل 2015 میں صدر شی زنگ پنگ پاکستان کے دورے پر تشریف لائے (اس دوران ہم متبادل ذرائع کے لئے دیگر دوست ملکوں کے ساتھ بھی رابطے میں رہے تھے)۔ صدر چینی کی آمد پر جن معاہدں پر دستخط ہوئے، ان میں ہزار میگا واٹ کے بجلی کے منصوبے بھی شامل تھے۔ اس سے پہلے ہم چولستان میں پاکستان کی تاریخ کے پہلے سولر پروجیکٹ (شمسی توانائی کا منصوبہ) پر خود اپنے وسائل سے کام کا آغاز کرچکے تھے جس کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کے پاس تھا۔ چینی صدر کے دورے میں بجلی کے جن منصوبوں پر دستخط ہوئے، ان میں 1320 میگاواٹ کا ساہیوال کول پراجیکٹ اور پورٹ قاسم کول پروجیکٹ شامل تھے۔ پورٹ قاسم بھی 1320میگا واٹ کا پراجیکٹ تھا۔
معاہدوں کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ ان پر عملدرآمد کے لئے ہم نے کمر کس لی۔ ہمیں وقت کی قدرو قیمت کا احساس تھا اور اسی احساس کے باعث ہم ایک لمحہ بھی ضائع کرنے کے روادار نہ تھے۔ ان منصوبوں سے وابستہ سبھی لوگ، فنی ماہرین، سرکاری افسران و اہلکاران اور محنت کش جنون کی طرح اپنے کام پر لگ گئے۔ آپ اپنے منہ میاں مٹھو کی پھبتی نہ کسیں تو میں یاد دلادوں کہ اس سے پہلے، گجومتہ سے شاہدرہ 30 کلو میٹر کے میٹروبس منصوبے کی 11 ماہ میں تکمیل بھی اسی جوش عمل کا شاہکار تھی جس پر ہمارے ترک بھائی پکار اٹھے تھے کہ یہ انسانوں کا نہیں جنون کا کام ہے اور اب چینی منصوبوں پر برق رفتار عملدرآمد پر ہماری چینی دوستوں نے ’’ پنجاب سپیڈ‘‘ کی اصطلاح و ضع کرلی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے یہ لگن، یہ بے قراری اور یہ محنت میرے رب کی عطا بھی ہے اور میرے والد محترم کی تربیت کا ثمر بھی۔ اس کے لئے خود ان کی اپنی زندگی بھی ہمارے لئے ایک مثالی تھی۔ وہ صبح بہت جلد اٹھتے، اپنے رب کے حضور سجدے کے بعد، سارا دن اور رات کے پہلے پہر تک، ایک ایک لمحہ اس احساس کے ساتھ بسر کرتے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بیش بہا نعمت ہے جسے ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں اپنے کام سے عشق تھا۔ ان کے نزدیک صنعتکاری محض کاروباری منفعت کا معاملہ نہ تھا۔ وہ اسے قومی تعمیر و ترقی میں اپنے کردار سے تعبیر کرتے۔ ان کے نزدیک یہ اپنے ہزاروں ہم وطنوں کے لئے روزگاری کی فراہمی کا وسیلہ بھی تھا۔