ریاست نبی کریمﷺ،دعوے،اعمال اور حقائق!
پیارے نبی کریمﷺ کی مثالی، لافانی ریاست کے بارے باتیں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ویسی ہی ریاست قائم کرنے کے خواہاں ہیں لیکن جب وہ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو فلاحی ریاست کا تصور پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیا فلاحی ریاست کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکمران اپنی رعایا کا خیال رکھتے ہوئے نظر آئیں، یا فلاحی کاموں کی تمام تر ذمہ داری حکمرانوں پر ڈال کر باقی سب بری الذمہ ہو جائیں۔ کیا ریاست مدینہ میں کوئی حکومت کے ڈر سے بھلائی، نیکی یا رحم دلی سے کام لیتا تھا۔ کیا ریاست مدینہ میں ناپ تول میں انصاف، وعدے کی پاسداری، امانتوں کی حفاظت کا ذمہ ریاست کی سزاوئں کی وجہ سے تھا۔ کیا زکوٰۃ اس لیے دی جاتی تھی کہ حکومت مال ضبط کر لے گی۔ غرضیکہ نیکی، عوامی فلاح یا مذہبی ذمہ داری کا کوئی ایک کام بھی لے لیں کہیں بھی آپکو ریاست ک ڈر اور خوف نظر نہیں آئے گا۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا ایسی چیز تھی جس کی مثالیں دنیا آج بھی دیتی ہے، کیا ایسا منفرد طرز عمل تھا کہ اس ماحول میں رہنے والے حضرت عمر فاروق ؓکے وضع کردہ قوانین آج کی دنیا میں ترقی یافتہ ممالک اپنائے ہوئے ہیں۔ کیوں آج بھی اس ریاست کا منظر سننے والوں کے دل موہ لیتا ہے، کیوں آج بھی اس ریاست کی باتیں سننے والوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں؟؟؟
قارئین کرام اس ریاست کی سب سے خاص، اہم اور منفرد بات تاجدار انبیاء خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی تربیت تھی، آپ کا کردار تھا، نبیﷺ کا وہ اخلاق تھا جس تک قیامت تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اس ریاست کے تمام اعلی افراد براہ راست نبیﷺکی تربیت و رہنمائی میں شامل رہے اور انہوں نے اپنے اعمال سے ایسی تاریخ رقم کی کہ دنیا آج بھی مثالیں دیتی ہے۔ وہ کسی ریاست کے بنائے قوانین کی سزا کے خوف سے نہیں بلکہ اللہ کے احکامات اور نبیﷺ کی سنت سے محبت میں سب بولتے تھے، ناپ تول میں کمی نہیں کرتے تھے، ہمسائے کا خیال رکھتے تھے، انصاف کرتے تھے، جھوٹ نہیں بولتے تھے، غلط بیانی نہیں کرتے تھے، دھوکہ نہیں دیتے تھے، صاف گوئی سے کام لیتے تھے، وعدہ نبھاتے تھے، غریبوں کا خیال رکھتے تھے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے، مسافروں کی ضروریات کو پورا کرتے تھے، مال جمع کرنے کے بجائے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے، تحمل مزاجی اور برداشت سے کام لیتے تھے، درگذر کرتے تھے، دشمنوں سے بھی زیادتی نہیں کرتے تھے۔ یہ سب چیزیں انہوں نے نبیﷺے سیکھیں۔ یوں تاجدار انبیاء کی ریاست اعمال کی بنیاد پر تھی۔ اخلاق اور کردار کی بنیاد پر تھی۔ حتیٰ کہ پیارے نبیﷺ کے جانی دشمن بھی آپکو صادق اور امین قرار دیتے تھے۔ وہ ریاست اعمال اور قول و فعل کے اعتبار سے اعلی انسانوں کا مجموعہ تھی۔ انسانوں کا ویسا معیار دوبارہ کبھی نصیب نہیں ہو سکتا تاہم اس سے روشنی اور تحریک ہمیشہ مل سکتی ہے۔ نبیﷺ کی فلاحی ریاست میں ہر شخص دوسرے کی فلاح کا ضامن تھا۔ کیا وہاں مال و دولت کی ریل پیل تھی، کیا وہ جنگی ساز و سامان سے لیس تھے، کیا تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ یقینا ایسا نہیں تھا لیکن جو ان کے پاس تھا ساری دنیا اس سے محروم تھی۔ وہ حق پر تھے، وہ سچ کے ساتھی تھے، وہ توکل اور تقویٰ کے عملی نمونے تھے، وہ حد درجہ انصاف پسند، صاف گو اور امانت دار تھے۔ یہی اصل فلاحی ریاست ہے جس کی بنیاد سو فیصد اعمال پر مبنی ہے۔ آج وزیراعظم عمران خان اس ریاست کی بات کرتے ہیں تو اس کا سب سے اہم اور بنیادی جزو اعمال، اخلاق اور کردار ہے۔انسانوں کی تربیت ہے، انسانوں کا معیار ہے، انسانوں کی سوچ ہے۔ وزیراعظم نے اس اہم اور بنیادی جزو پر عملدرآمد کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں، کیا انہوں نے قوم کے کردار اور اخلاق کی تعمیر کے لیے کام کیا ہے، کیا انہوں نے پاکستانیوں کو ایسی زندگی کے لیے تیار کیا ہے۔ صرف عمران خان ہی کیوں یہ سوال تمام سیاسی و مذہبی رہنماؤں سے پوچھا جانا چاہیے کہ اس حوالے سے ان کا کردار اور خدمات کیا ہیں۔ جب تک ان خطوط پر کام نہیں کیا جائے گا نبیﷺ کی مثالی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
قارئین کرام کوئی قانون چوری سے نہیں روک سکتا، جھوٹ بولنے سے نہیں روک سکتا، کوئی سزا ملاوٹ سے ختم نہیں کر سکتی، کوئی ڈر یاخوف برائی سے نہیں روکتا البتہ تربیت یہ کام بخوبی کر سکتی ہے۔ وہ تربیت کیا ہے وہ تربیت یہ ہے کہ ہر وقت آپ کو کوئی دیکھ رہا ہے۔ کیا ہم نے ایسی تربیت کی ہے، ہمارا پورا معاشرہ اس کے برعکس زندگی گذار رہا ہے، نسل در نسل چوری، ڈاکہ، ملاوٹ، جھوٹ، فریب، دغا، دھوکہ، قتل و غارت، لوٹ مار، عدم برداشت، شدت پسندی، بدلہ، تعصب اور ناانصافی کے نصاب کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان سب برائیوں اور علتوں کے بعد ہم یہ سمجھیں کہ ہم پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، ہم سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہو گا۔۔۔
ہم سادہ لوح ہیں، مذہب جہاں ہماری سب سے بڑی طاقت ہے وہیں سب سے بڑی کمزوری بھی ہے، ہم آج تک مختلف حوالوں سے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ بدقسمتی سے کسی نے بھی حقیقی معنوں میں درست سمت میں رہنمائی نہیں کی۔ مذہبی رہنما تو اپنی جگہ سیاست دان بھی ووٹ بینک میں اضافے اور عوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے مذہب کارڈ استعمال کرتے رہے ہیں۔ سیاست دانوں نے ہمیں سیاست کے لیے استعمال کیا، مذہبی رہنماؤں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے معصوم لوگوں کو استعمال کیا ہے۔ آج بھی وہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ معاشرے کی کردار سازی میں کسی نے اپنا حصہ نہیں ڈالا۔ تاریخ گواہ ہے کمزور معیشتوں والے ملک اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن جہاں عوام میں اخلاقی قدریں ختم ہو جائیں، کردار تباہ ہو جائیں۔ اس معاشرے کو تباہ کرنے کے لیے جنگوں اور ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے، کیا یہ خطرناک نہیں ہے۔ اگر ہم چوری کی سزا پر ہاتھ کاٹنا شروع کر دیں تو نوے فیصد سے زائد کے ہاتھ کٹ جائیں گے، اگر وعدہ خلافی پر زبان پر کٹ لگانا شروع کر دیں تو پچانوے فیصد اس کی زد میں آئیں گے، اگر خیانت کی سزا کا اطلاق ہو جائے تو نوے فیصد نشانے پر ہونگے، اگر ملاوٹ پر سزا دی جائے تو پچانوے فیصد سزا یافتہ شمار ہوں گے اور ہم باتیں کرتے ہیں ریاست مدینہ کی، یہ عمل کی زندگی ہے۔ باتیں کر کے وقت اچھا گذار سکتے ہیں، لوگوں کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں لیکن جب تک میدان عمل میں نہیں اترتے اس وقت تک کامیابی ممکن نہیں۔ ٹرین کو منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ٹریک کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم ابھی تک ٹریک کے قریب ہی نہیں ہیں تو منزل تک کیسے پہنچیں گے۔