مقبوضہ کشمیر :گرفتاریاں ، کرفیو جاری، عوامی مارچ آج ، قتل عام کا خدشہ ، عالمی تنظیم: بھارت پابندیاں ختم، پر امن مظاہرین کیخلاف کاروائی روکے: اقوام متحدہ ماہرین
سری نگر (کے پی آئی، این این آئی، نوائے وقت رپورٹ) مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی پسند قیادت کی اپیل پر آج سرینگر میں واقع اقوام متحدہ کے مبصر گروپ کے دفتر کے سامنے عوامی مارچ کیا جائے گا۔ کرفیو اور دوسری پابندیوں کو توڑتے ہوئے کشمیر کے خلاف بھارتی اقدامات اور جموں وکشمیر پر اس کے غیرقانونی تسلط کے خلاف سڑکوں پر مارچ کیا جائے گا۔ بوڑھے، جوان، مرد اور خواتین سب کو بھارت اور پوری دنیا کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے مارچ کریں گے۔ کے پی آئی کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مزاحمتی قیادت نے علما کرام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے جمعہ کے خطبات کے دوران کشمیر کے مسئلے کواجاگرکریں۔ ادھرمقبوضہ کشمیر میں نظام زندگی معطل ہوئے 19 دن ہوگئے،کاروبار زندگی معطل ہے، لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ باہر نکلنے والوں کو پیلٹ گن اور آنسو گیس سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کرفیو کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں اشیاء خورونوش اور دواں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ قابض بھارتی انتظامیہ نے 500 سے زائد کشمیری رہنمائوں کو گھروں میں محصور اور عقوبت خانوں میں اسیر رکھا ہے۔ عوام کا کہنا تھا کہ وہ تمام رکاوٹیں توڑ کر عوامی مارچ میں شرکت کرنے کی بھر پور کوشش کرینگے۔ دوسری جانب بھارتی وزیر مملکت برائے امور داخلہ جی کشن ریڈی نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کے پاس کشمیر سے سکیورٹی فورسز کو واپس بلانے کی ایمرجنسی کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ٹی وی انٹرویو میں ریڈی نے کہا، "ہم وہاں سے فوراً فوجی واپس کیوں بلائیں گے جبکہ پاکستان اکسانے کی کوشش کررہا ہے"۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کو اکسانے اور امن کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی برادری تک اپنی بات پہنچا سکے۔ محلے سمیت بڑی سڑکیں بند کررکھی ہیں اور سخت پہرے سے زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ انٹرنیٹ، لینڈ لائن، ٹیلی وژن، کیبل، موبائل سمیت دیگر سہولتیں بند ہیں، سڑکیں سنسان ہیں، تعلیمی ادارے بند ہیں، ہسپتال میں ادویات کی کمی کے باعث انسانی بحران سر اٹھانے لگا ہے۔ سری نگر میں سخت ترین کرفیو اور سکیورٹی حصار کے باوجود شہریوں نے احتجاج کیا اور بھارتی قابض فوج پر پتھرائو کیا۔ اس دوران ظالم بھارتی فوج نے پیلٹ گنز اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ اس دوران متعدد شہریوں کے پکڑے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ کشمیریوں کی جانب سے نماز جمعہ کے بعد زبردست مظاہرے کی اطلاعات ہیں۔ حریت رہنمائوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سری نگر کے علاقے سنورا میں موجود اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر شہری مظاہرہ کریں اور کرفیو توڑ کر مزاحمت کرتے ہوئے آئیں۔ سری نگر کا قصبہ سورا بھارت کیخلاف مزاحمت کی علامت بن گیا۔ بھارتی فوج کی تین بار علاقے میں داخلے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ عوام نے صورہ میں خندقیں کھود کر علاقہ فوج کیلئے نوگو ایریا بنا دیا۔ علاقے میں بھارتی فوج کیخلاف زبردست احتجاج کیا گیا۔ اور مساجد سے آزادی کے حق میں صدائیں بلند ہوئیں اور گو انڈیا گو کے نعرے لگائے گئے۔ لوگوں نے خندقوں میں لکڑی، آئل ٹینکس اور کنکریٹ پلرز لگا دیئے دن رات پکڑ دھکڑ جاری ہے۔
مقبوضہ کشمیر
نیویارک/جنیوا (بی بی سی ‘این این آئی) عالمی تنظیم جینو سائیڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی پر الرٹ جاری کرتے ہوئے کشمیریوں کی نسل کشی پر 10 مراحل کی نشاندہی کی ہے اورکہاہے کہ بھارتی فوج نے 2016 سے اب تک 70 ہزار کشمیری شہید کیے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق گزشتہ روز جاری کی گئی جینو سائیڈ واچ نے رپورٹ میں کہا بڑے پیمانے پر قتل عام شروع ہو سکتا ہے۔ کہ اقوام متحدہ اور رکن ممالک بھارت کو کشمیر میں نسل کشی سے روکیں، بھارتی فوج نے 2016 سے اب تک 70 ہزار کشمیری شہید کیے، مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ بند ہے۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں، مقبوضہ کشمیر میں تشدد اور جنسی زیادتی کے واقعات عام ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیر میں جرم کے بغیر دوسال تک قید کے واقعات عام ہیں، مسلمان حریت رہنماؤں کو گرفتار یا نظر بند کر دیا گیا، کشمیریوں کے مد مقابل ہندو اور سکھوں پر مشتمل بھارتی فوج ہے، مقبوضہ وادی میں 1990 تک ہندوپنڈت معاشی طور پرحاوی تھے، بی جے پی نے ہندوؤں کو مقبوضہ کشمیر میں دوبارہ مضبوط کیا، وادی میں مسلمانوں کو دہشتگرد، شرپسند، علیحدگی پسند بنا دیا گیا۔جینو سائیڈ واچ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر پر جدید اسلحہ سے لیس 9 لاکھ فوجی اور پولیس قابض ہے، مودی اور بی جے پی نے مسلم مخالف نفرت کو ہوا دی، مودی اور بی جے پی نے سوشل میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا کیا، بی جے پی رہنماؤں نے فوجی قبضے کو مسئلہ کشمیر کا حتمی حل قرار دیا، کشمیریوں کو گرفتار، قتل، محصور کر کے تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ادھر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کشمیر میں آزادی اظہار پر پابندیاں ختم کرے۔ معلومات تک رسائی، پر امن مظاہروں سے پابندی ہٹائے۔ جموں و کشمیر میں بھارتی اقدامات وادی کی مخدوش صورتحال کو مزید ابتر کریں گے۔ بغیر کسی وجہ کے انٹرنیٹ، مواصلاتی نظام کی بندش بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی حکومت کا بلیک آؤٹ جموں و کشمیر کے لوگوں کو بغیر کسی جرم سزا دینے کے مترادف ہے۔ بھارتی حکومت کی پابندیاں انتہائی غیر مناسب، کشمیر میں بڑی تعداد میں گرفتاریوں کی بھی اطلاعات ہیں۔ بھارتی فورسز کے گھروں پر چھاپے، گرفتاریاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ کشمیریوں کی بڑی تعداد میں گمشدگیوں کی اطلاعات بھی گہری تشویش کا باعث ہیں۔ مظاہروں میں نہتے کشمیریوں پر اسلحہ کا استعمال انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ ماہرین نے بھارت کو کشمیر میں تشدد بند کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ ماہرین نے کہا کہ مودی سرکار نے آزادی اظہار رائے اور پرامن مظاہروں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ کشمیر کی حیثیت بدلنے کے بھارتی فیصلے کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھی۔ مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی رابطہ ختم کر دیا گیا۔ انٹرنیٹ، موبائل فون سروس بند ہے۔ مودی سرکار نے پورے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا رکھا ہے۔ بھاری تعداد میں بھارتی فوجیوں کے باعث پرامن اجتماعات نہیں ہو رہے۔ بی بی سی کے مطابق ایسے اقدامات اور گرفتاریوں کے حوالے سے جب حکام سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ابھی معلومات جمع کی جا رہی ہیں لہذا یہ اعدادو شمار بعد میں بتائے جائیں گے۔ حکام گذشتہ دس روز سے مسلسل اس سوال کو ٹال رہے ہیں۔ سرینگر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں نظام زندگی اب بھی معطل ہے اور کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں حکومت کی کوششوں کے باوجود بھی بحال نہیں ہو پا رہیں۔ سرکاری حکم نامے کی وجہ سے اساتذہ تو سکولوں میں آ رہے ہیں لیکن بچے بالکل بھی سکول نہیں جا رہے ہیں۔ یہ عجیب صورتحال ہے کیونکہ ساری حریت پسند قیادت اور ہند نواز قیادت نظربند یا قید ہے اور کسی نے بھی ہڑتال کی کال نہیں دی ہے۔ انہوں نے کہا کشمیر میں ایک خوفناک سی خاموشی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر آنے کے حکومتی دعووں کے برعکس سرینگر کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ رات کے اوقات میں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق سکیورٹی اہلکار رات کے اوقات میں گھروں پر چھاپے مار کر نوجوانوں کو گرفتار کر رہے ہیں۔ سری نگر کے ہائشی اکبر ڈار نے بی بی سی کے نامہ نگار کو بتایا 'ہمارے دو لڑکے اٹھائے گئے ہیں۔ شاید باہمی تنازعہ یا کسی اور وجہ سے۔ رات کے ٹائم پر لے گئے۔ بی بی سی نامہ نگارکے مطابق ان کی ملاقات ایک ایسی خاتون سے بھی ہوئی ہے جن کے بیٹے کو پرسوں رات گرفتار کر کے تھانے لے جایا گیا اور لڑکے کے نابینا دادا سڑک پر رو رہے تھے۔ دروازے اور کھڑکیاں توڑ دیں۔ ہم نے اپیل کی کہ ہم لڑکوں کو صبح پولیس سٹیشن لے آئیں گے مگر وہ اس سے متفق نہیں ہوئے۔ ہر تھانے میں ہمارے بچے قید ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے آج بھارت کی حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں ذرائع مواصلات کی بندش اور پر امن مظاہروں کے خلاف کارروائی روکنے کا کہا ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ ہائی کمشنر کے دفتر کی جانب سے جاری تحریری بیان کے مطابق ادارے سے منسلک ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ریاست جموںکشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد بندشوں کے نفاذ کے باعث خطے میں کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔ یہ بیان ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر سے آنے والی خبروں کے مطابق رواں ماہ کی چار تاریخ سے جموں اور کشمیر میں مواصلات کا نظام تقریباً مکمل طور بند ہے اور انٹرنیٹ، موبائل، لینڈ لائن اور کیبل نیٹ ورک کی سروس بھی منقطع کر دی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’حکومت کا انٹرنیٹ اور مواصلات کے نظام کو بغیر کسی وجہ کے بند کرنا ضرورت اور متناسبیت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ ’یہ بندش جموں وکشمیر کے لوگوں کو بغیر کسی جرم کہ اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔‘ حکومت نے مختلف اوقات میں جموں اور کشمیر میں کرفیو بھی نافذ کر رکھا تھا اور بھاری تعداد میں فوجی دستے نقل و حرکت اور پرامن مظاہروں کو روکنے کے لیے کشمیر کی وادی میں بلا لیے تھے۔’ہم انڈیا کے حکام کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ پابندیاں غیرمتناسب ہیں۔‘ساتھ ہی وادی سے آنے والی معلومات کے مطابق سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور مظاہرے کرنے والوں کی گرفتاریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے آنے والی خبروں سے سخت پریشان ہیں کہ سکیورٹی اہلکار رات میں گھروں پر چھاپے مار رہے ہیں اور توجوانوں کو گرفتار کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ’یہ گرفتاریاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتی ہیں اور حکام کی جانب سے ان الزامات کی باقاعدہ تفتیش کرنا ضروری ہے اور اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔‘ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ان الزامات کے حوالے سے فکر مند ہیں جن کے مطابق کچھ گرفتار کیے گئے لوگوں کو کہا رکھا گیا ہے کچھ معلوم نہیں اور جبری گمشدگیوں کا بھی خدشہ ہے۔ اجتماعی گرفتاریوں اور ذرائع مواصلات کی بندش کے باعث ان میں بھی مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ ‘انہوں نے مظاہرین کے خلاف حد سے زیادہ طاقت استعمال کرنے کے حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا جس میں گولیوں کا استعمال بھی شامل ہے جس کے باعث ہلاکتوں کا امکان ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کم سے کم کرے اور ہتھیاروں کے استعمال صرف اس وقت کیا جائے جب جانی نقصان کا خدشہ ہو۔
عالمی تنظیم