ویڈیو سکینڈل کیس فیصلہ قابل ستائش، گیند عدالت عالیہ کے کورٹ میں: قانونی ماہرین
اسلام آباد (اعظم گِل سے) قانونی ماہرین نے جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو فوری طور پر کوئی ریلیف نہیں ملا، انہیں ریلیف حاصل کرنے کے لئے ہائیکورٹ سے رجوع کرنا ہوگا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن امان اللہ کنرانی نے کہا کہ عدالت نے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سکینڈل کا معاملہ مفروضہ قرار دے کر ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ اچھا فیصلہ ہے۔ عدالتوں میں فیصلے گواہوں اور شواہد کی بنیاد پر ہوتے ہیں اگر ویڈیو میں صداقت ہے تو مسلم لیگ ن کی قیادت کو ایف آئی اے کو پیش کرنی چاہیے تھی جس سے وہ کوئی فائدہ حاصل کرسکتے تھے اب بھی اگر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ویڈیوز پیش کرنے کے ساتھ اسے ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس صورت میں انہیں ہائیکورٹ سے بڑا ریلیف مل سکتا ہے۔ سینئر وکیل محمد حبیب قریشی نے کہا کہ عدالت عظمی نے اب جج ارشد ملک کی ویڈیوسکینڈل کیس کی بال اب عدالت عالیہ کی کورٹ میں پھینک دی ہے، فیصلے میں سپریم کورٹ نے پانچ سوال اٹھائے ہیں پانچوں سوالوں کے جواب بھی دے دیئے ہیں۔ اب نواز شریف کے پاس ریلیف لینے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فورم موجود ہے اور نواز شریف کو ویڈیو کا فائدہ اسی صورت میں ہوگا جب باضابطہ طور پر عدالت میں پیش کی جائے گی۔ ایڈووکیٹ احسان علی گل نے کہا ہے کہ جج ارشد ملک کا بیان حلفی خود ہی اسکے خلاف چارج شیٹ ہے۔ سوال یہ ہے کیا نواز شریف مبینہ ویڈیو سے ریلیف لینے کے لیے عدالت عالیہ سے رجوع کرتے ہیں یا نہیں۔