عالمی برادری کشمیر میں مظالم رکوائے:چینی سفیر، بھارت غیر قانونی اقدام واپس لے : افغان وفد
اسلام آباد (وقائع نگارخصوصی) چین نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اور چین مقبوضہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں، خطے میں ہر قسم کی جارحیت اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہیں، کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رکوانے کیلئے عالمی برادری کو کردار ادا کرنا چاہیے، سی پیک کے تحت جاری منصوبوں پر کام میں مزید تیزی لائی جائے گی۔ اس امر کا اظہار چین کے پاکستان میں سفیر یو جینگ نے چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی سے ملاقات میں کیا۔ یو جینگ نے اسلام آباد میں چیئرمین سینٹ سے ملاقات کی ۔ ملاقات میں کشمیر سمیت خطے کی موجودہ صورتحال اور دو طرفہ امور پر گفتگوکی گئی۔ چیئرمین سینٹ نے چینی سفیر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پر پاکستان اور چین کا موقف یکساں ہے۔ بھارت کو کسی طور پر خطے کا تھانیدار نہیں بننے دیں گے۔صادق سنجرانی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے بھارتی فیصلے کی پور ی دنیا مذمت کر رہی ہے۔ چینی سفیر نے کہا کہ پاکستان دیرینہ اور بے مثل دوست ہے۔ خطے میں ہر قسم کی جارحیت اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔ چینی سفیر نے کہا کہ کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رکوانے کیلئے عالمی برادری کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ یو جینگ نے کہا کہ پاکستان اور چین مقبوضہ کشمیر کے حوالے اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں۔ سی پیک کے تحت جاری منصوبوں پر کام میں مزید تیزی لائی جائے گی۔ دریں اثناء افغانستان کے پارلیمانی وفد نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی سے ملاقات کی۔ چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی نے کہا کہ مضبوط اور خوشحال افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشائی خطے کیلئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ افغانستان میں امن و امان کی بہتری سے پاکستان سمیت پورے خطے کا امن وابستہ ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پارلیمنٹ ہاؤس میں افغانستان کے پارلیمانی وفد سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سینٹ سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران اطراف نے معاشی تعاون اور علاقائی روابط کو مرکزی اہمیت دینے کی ضرورت پر زور دیا اور دونوں ملکوں کے مابین پارلیمانی تعلقات کو مستحکم بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا گیا۔چیئرمین سینٹ نے کہا کہ افغانستان کا مسئلہ طاقت کے استعمال کی بجائے گفت و شنید سے حل کرنے کی ضرورت ہے اور اس عمل کی قیادت خود افغانستان کو کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان باہمی تکریم مشترکہ مفادات اور عدم مداخلت کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے اور ہم افغانستان میں مستحکم حکومت کے خواہش مند ہیں جس کیلئے پاکستان کی کوئی پسند نہ پسند نہیں ہے۔ افغانستان کے لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے خود کلیدی کردار ادا کرنا ہے اور پاکستان قیام امن کیلئے ہر قسم کی معاونت فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی وفد کے تبادلوں سے پہلے سے موجود برادرانہ تعلقات کو مزید مستحکم ہوں گے اور ایک دوسرے کے درمیان غلط فہمیاں کے ازالہ میں مدد ملے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کی نوجوان نسل کے مابین ربت مستحکم ہو اس سلسلے میں مختلف مشترکہ پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اورتوقع ہے کہ افغانستان اس سلسلے میں کشمیری بھائیوں کی بھرپور معاونت کرے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ وفود مختلف ممالک میں بھیجے جائیں گے تاکہ کشمیروں پرہونے والے مظالم کو دنیا بھر میں اْجاگر کیا جاسکے اور افغانستان کی اہمیت کی پیش نظر فیصلہ کیا گیا ہے کہ میں بطور چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی مشترکہ طور پر افغانستان کا دورہ کریں گے تاکہ افغانستان کی پارلیمنٹ کے اراکین عوام اور تمام متعلقہ شعبوں کے نمائندوں کو کشمیر میں بھارتی بربریت سے آگاہ کیا جاسکے اور توقع ہے کہ افغانستان اس سلسلے میں بھر پور معاونت کرے گا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سینٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ پارلیمانی وفود کے تبادلوں کا مقصد دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مستحکم بنانا اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ اس برادرانہ تعلقات کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں اور ہمسایہ ہونے کے ناطے ہمیں ایک دوسرے کی بھر پور معاونت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں میں امن ہو گا تو خطے کو خوشحالی نصیب ہو گی۔ سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قدریں، دین، ثقافت، نسلی تعلق بہت مضبوط ہے اور ہمارے مسائل بھی مشترکہ ہیں۔ اس لئے ہمیں اپنے مسائل کا حل بھی مشترکہ نکالنا چاہئے۔اس موقع پر سینیٹر ڈاکٹر مہر تاج روغانی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ چیئرمین سینٹ کی معاونت کرنے والے دیگر سینیٹرز میں سلیم ضیائ ، لیاقت تراکئی اور مومن خان آفرید ی شامل تھے۔ 6رکنی افغان پارلیمانی وفد کے سربراہ سینیٹر فیض خان وکیلی نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے دورے کی دعوت اور مہمان نواز ی پر چیئرمین سینٹ اور ارکان سینٹ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغان جہاد کے دوران جسطرح پاکستان نے افغان مہاجرین کی خدمت کی اْس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں انفراسٹکچر کی بہتری کیلئے بھی پاکستان کا کردار قابل تعریف ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اسے افغانستان کے پسماندہ علاقوں تک توسیع دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت کے حوالے سے قوانین کو زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے اور صحت کے شعبے میں پاکستان کے لوگ افغانستان میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اس سے نہ صرف افغانستان میں صحت عامہ کی سہولتوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی بلکہ دونوں ملکوں کی عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کی بھر پور تحسین کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پوری مسلم امہ کا مسئلہ ہے اور کشمیروں کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے ہم اْس کے خلاف ہیں اور کشمیروں اور پاکستان کے موقف کی ہم بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر سے متعلق بھارتی آئین میں موجودہ تبدیلی ایک غلط اقدام ہے جس کی واپسی ضروری ہے۔