لیفٹیننٹ فیصل ضیا گھمن شہید (ستارۂ جرأت)
شہادت سے بہتر کوئی موت نہیں۔ میرے جوانوں مجھ سے وعدہ کرو کہ ہم جس مشن کے لیے منتخب کیے گئے ہیں اس کی تکمیل کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ ہمارا مشن مشکل ضرور ناممکن نہیں۔ ہمیں وادی کشمیر میں ہماری مائوں، بہنوں اور بچیوں کی بے حرمتی کرنے والی بھارتی فوج کو ایسا سبق سیکھانا ہے کہ کشمیر ان کے ناپاک وجود سے پاک ہو جائے۔ یہ الفاظ لیفٹیننٹ فیصل گھمن کے تھے۔ سب نے ہم آواز ہو کر کہا ہم اکٹھے جئیں گے اور اکٹھے ہی شہید ہوں گے۔ 2 جولائی 1999ء کو سرفروشوں کا یہ قافلہ گلگت کے لیے روانہ ہوا۔ آپ کی یونٹ 33 ایف ایف کے دیگر افسر اور جوان بھی ساتھ تھے۔ 33 ایف ایف یونٹ کو صرف ایک دن قیام کے بعد ہی کارگل کی اٹھارہ ہزار بلند چوٹیوں پر مصروف جنگ ہونے کے لیے بھیج دیا گیا۔ برفانی گھاٹیوں اور برف پوش بلند ترین پہاڑی سلسلوں کو عبور کرنے کا ناقابل یقین سفر چار دن میں پیدل چلتے ہوئے طے ہوا گویا جوان دن اور رات کو دھنستی ہوئی برف کی تہہ پر ہی چلتے رہے۔ جہاں دس قدم چلنے کے بعد سانس بحال کرنے کے لیے رکنا پڑتا ہے۔ افسروں اور جوانوں کی منزل کارگل کی وہ بلند اور دشوار گزار چوٹیاں تھیں جہاں سے سیاچن جانے والی واحد شاہراہ گزرتی ہے۔ اس شاہراہ کو کاٹنا بہت ضروری تھا۔ برف کی تہہ پر چلتے ہوئے ایک مقام ایسا بھی آیا جہاں آسمان کو چھوتی ہوئی عمودی چوٹی راست میں حائل دکھائی دی۔ کمانڈنگ آفیسر کے مطابق صرف آرمی کمانڈوز ہی اس عمودی چوٹی پر پہنچ کر رسوں کی مدد سے جوانوں کو دوسری جانب پہنچا سکتے ہیں۔ افسر اور جوان سب تھکاوٹ سے چور تھے۔ اسی اثناء میں لیفٹیننٹ فیصل نے اپنے کمانڈنگ آفیسر سے مخاطب ہو کر کہا سر یہ کارنامہ میں انجام دے سکتا ہوں۔ پتلے دبلے نوجوان کے چہرے پر تھکاوٹ اور بے آرامی کے آثار نمایاں تھے لیکن آنکھوں میں بلا کی چمک دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ یہ جوان اپنی دھن کا پکا ہے۔ بطور خاص اس لمحے جب بھارتی فوج کی گولہ باری اور مسلسل فائرنگ نے ماحول کو خطرناک بنا رکھا تھا۔ کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد فیصل نے رسوں کی مدد سے اپنی یونٹ کے تمام افسروں اور جوان کو عمودی پہاڑی کے دوسری جانب پہنچا دیا۔ 16 جولائی 1999ء کو یونٹ اپنی اپنی مقررہ جگہ پر تعینات ہو گئی۔ لیفٹیننٹ فیصل ، سی کمپنی کے دس جوانوں کے ہمراہ، یونٹ سے تین سو گز مشرق میں اس مقام پر مورچہ زن ہوئے۔ کارگل کی ان وادیوں میں انڈین بوفرز توپوں نے اتنی گولہ باری کی کہ ان کے دھانے ناقابل استعمال ہو گئے۔ جبکہ بھارتی ہیلی کاپٹر اور جنگی طیارے مسلسل بمباری کر رہے تھے۔ اس دوران کتنے ہی معرکے لڑے گئے اور ہر معرکے میں بھارتی فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کیے رکھا۔ 19 جولائی کو سیاچن جانے والی شاہراہ پر ٹرکوں کا ایک قافلہ نظر آیا۔ فیصل گھمن نے آرٹلری کا فائر نشانے پر لگوا کر فوجی قافلے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا ۔ 22 اور 23 جولائی کی رات دشمن نے ایک بٹالین نفری کے ساتھ ارشد پوسٹ پر چاروں اطراف سے حملہ کر دیا۔ فیصل گھمن اور سی کمپنی کے جوان گھیرے میں آ گئے۔ بھارتی میجر نے بلند آواز میں کہا ہتھیار ڈال دو ہم تمہیں زندگی کی ضمانت دیتے ہیں۔ لیفٹیننٹ فیصل نے گرجدار آواز میں کہا ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے تم لڑنا چاہتے ہو تو ہم بھی تیار ہیں۔ یہ سنتے ہی بھارتی فوج نے زبردست حملہ کر د یا۔ چند گولیاں لیفٹیننٹ فیصل کے ماتھے کو چرتی ہوئی نکل گئیں۔ اس معرکے میں سی کمپنی کے باقی جوان بھی شہید ہو گئے۔ لیفٹیننٹ فیصل ضیا گھمن شہید کو بعد از شہادت ’’ستارہ جرأت ‘‘ سے نوازا گیا جو ان کے والد میجر (ر) ضیا قادر نے وصول کیا۔ 28 جولائی 1999ء کی صبح سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا شہید کا جسد خاکی لاہور اپنے والدین کے گھر پہنچا تو ماتھے پر زخم سے خون رس رہا تھا۔ ماں نے اپنا ہاتھ شہید کے ہونٹوں پر رکھ کر کہا بیٹا جب بھی تم چھٹی پر گھر آتے تھے تو میرے ہاتھ کا بوسہ لیا کرتے تھے کیا آج تم ایسا نہیں کرو گے، یہ کہنا ہی تھا کہ سب کے سامنے شہید کے ہونٹوں نے جنبش لی اور ماں کے ہاتھ کا بوسہ لے لیا۔ جنازے اور تدفین کے وقت سخت گرمی میں بھی بادل سایہ فگن رہے اور ٹھنڈی ہوا چلتی رہی۔ دوسرے دن جب والد فاتحہ کے لیے قبرستان پہنچے تو انہیں قبر میں پیوست ایک پتھر دکھائی دیا جب اسے اکھاڑا گیا تو اس پر قدرتی طور پر لا الہ الا اللہ لکھا ہوا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ نے فیصل گھمن کی شہادت قبول کر لی۔ آج بھی وہ پتھر شہید کے گھر محفوظ ہے۔ فیصل گھمن یکم مئی 1978ء گوجرانوالہ میں میجر ضیا قادر کے گھر پیدا ہوئے۔ 1995ء ایف ایس سی کے بعد فوج کو جوائن کیا۔ 1998ء کو پاس آئوٹ ہوئے اور 23 جولائی کو جام شہادت نوش کر کے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی لاہور میں دفن ہوئے۔