ْقائد ،معیشت اور ایوان قائد
رب رحمن و رحیم غلام حیدر وائیں شہید کے درجات کو بلند سے بلند ترین فرمائے جنہوں نے وطن عزیز میں غیر نظریاتی یلغار کے باوجود ایسے نظریاتی ادارے قائم کئے جو آنے والی نسلوں کیلئے چراغ منزل بھی ہیں اور ایک نظریاتی مورچہ و دمدمہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ان اداروں کو اس نہج تک پہنچانے میں امام صحافت حضرت مجید نظامی کا کلیدی کردار بھی ہمیشہ روشن اور تاباں رہے گا۔جناب نظامی نے ایوان اقبال کے بعد ایوان قائد قوم کو عطا کرکے ایک نظریاتی رہبر اور محسن پاکستان کا مقام حاصل کیا ۔چند دوستوں کے ہمراہ ایوان قائداعظم میں ایک نظریاتی نشست میں شامل ہونے کا موقع ملا جہاں قائم تھنک ٹینک کے تحت اجلاس سے سابق آئی جی پنجاب ڈاکٹر سید اظہر حسن ندیم کا قائداعظم اور معیشت کے عنوان سے خصوصی خطاب تھا۔اجلاس میں ملک کے مختلف طبقہ ہائے زندگی کے افراد شامل تھے۔
ڈاکٹر سید اظہر حسن ندیم نے کہاامریکی مفکر سٹینلے والپرٹ کا قائداعظمؒ کی سوانح حیات کے بارے میں لکھی گئی کتاب ’’جناح آف پاکستان‘‘ میں کہنا ہے کہ ’’دنیا کی تاریخ میں چند افراد تاریخ کو موڑ پاتے ہیں، چند افراد دنیا کا نقشہ تبدیل کر پاتے ہیں، مشکل سے کوئی ایک قومی ریاست کی تشکیل کر پاتا ہے مگر محمد علی جناحؒ نے یہ تینوں کام سرانجام دئیے۔ اس سے قائداعظمؒ کی عظیم فہم وفراست اوربلند افکار ونظریات کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک ایسی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کا مقصد ایک فلاحی اسلامی معاشی ریاست کا قیام تھا۔ قائداعظمؒ اقتصادی طور پر مضبوط و مستحکم پاکستان دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک ایسا پاکستان جہاں ہر ایک کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ جہاں صحت وتعلیم کی سہولیات سب کو میسر ہوں۔یکم جولائی 1948 ء کو پاکستان کے مرکزی بینک کے افتتاح کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے معاشی ترقی کا ایک مکمل روڈ میپ دیا تھا۔انہوں نے کہاکہ قائداعظمؒ کے خاندان میں زیادہ تر لوگ تجارت کیا کرتے تھے لیکن آپ نے سیاست میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ قائداعظمؒ جیسی شخصیت کی کوئی مثال تھی اور نہ ہے۔ ہندو کی سوچ تھی کہ پاکستان معاشی عدم استحکام سے دوچار ہو کر محض چھ ماہ میں ہی ختم ہو جائیگا لیکن قائداعظمؒ نے اپنی فہم وفراست سے پاکستان کو مالی مشکلات سے نکالا۔انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ نے ملک میں انڈسٹرلائزیشن کی بنیاد رکھی ۔ مہاجرین کی آباد کاری آسان کام نہ تھا۔قائداعظمؒ نے یہ کام بھی نہایت تندہی سے انجام دیا۔ انہوں نے کہا ہم پاکستان کو قائداعظمؒ کے تصورات کے مطابق نہ بنا سکے ، لیکن مستقبل قریب میں ہم نے پانی کے مسئلہ پر قابو پا لیا تو پاکستان 2030ء تک ایشیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائیگا۔
بیگم مہناز رفیع نے کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے معیشت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کیلئے بین الاقوامی تناظر میں ایک جامع گائیڈ لائن دی تھی ہمیں اس پر عمل کرنا چاہئے۔
قیوم نظامی نے کہا کہ قیام پاکستان کا ایک اہم مقصد عام آدمی کا معیار زندگی بہتر کرنا اور ایک ایسے معاشرہ کا قیام تھا جہاں ہر شہری اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے ترقی کی منازل طے کر سکے۔ میاں سلمان فاروق نے کہا کہ قائد اعظمؒ جانتے تھے کہ معاشی ترقی میں ہی نئے مملکت کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔اسی لئے پاکستان کے قیام سے پہلے ہی قائد اعظم نے مسلمانوں کو کاروبار بڑھانے، صنعتی سرگرمیاں تیز کرنے اور تجارت کو ترقی دینے پر زور دیا تھا۔
پروفیسر عابد شیروانی نے کہا کہ قائداعظمؒ نے قیام پاکستان سے قبل ہی مسلم لیگ کی ایک کمیٹی بنائی جس کے ذمہ پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے اقدامات تجویز کرنا تھا، اس کمیٹی نے اپنا ورکنگ پیپر1945ء میں ہی تیار کر لیا تھا۔اس کے مطابق ملک میں شرح خواندگی میں اضافہ ، ہیومن ریسور ڈویلپمنٹ کیلئے ٹریننگ سنٹرز کا قیام اور وسائل کے صحیح استعمال اور انہیں ترقی دینے کیلئے تجاویز دی گئی تھیں۔ تقسیم ہند کے وقت خزانہ کی تقسیم بھی غیر منصفانہ طریقہ سے ہوئی اور پاکستان کو کل400کروڑ روپے میں سے محض 20کروڑ روپے ملے۔ تاہم قائداعظمؒ نے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ یکم اپریل 1948ء کو پاکستان کی کرنسی وجود میںا ٓئی تو قائداعظمؒ بے حد خوش تھے۔
سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ ہمارے قائدین نے ہمارے لئے جو راہ متعین کردی ہیں ہمیں اسی پر چلنا چاہئے۔ پاکستان میں نہ افرادی قوت کی کمی ہے اور نہ ہی قابلیت اور وسائل کی اور ہم اپنے ہی وسائل سے اپنے ملک خداداد کو مضبوطی ،ترقی اور استحکام کی معراج تک لے جا سکتے ہیں۔ تقریب سے بیگم خالدہ جمیل،پروفیسر احمد سعید اور شاہد رشید نے بھی خطاب کیا۔
قارئین کرام ۔حضرت قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک مثالی اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کا عزم رکھتے تھے ۔آپ مملکت خداداد میں سماجی انصاف اور اسلامی اخوت پر مبنی ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کے خواہاں تھے جہاں تمام افراد کو بلاتفریق مذہب و نسل آگے بڑھنے کے مواقع میسر آسکیں۔قوم کو موجودہ سیاسی و معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لئے بانیان پاکستان کے وژن کے عین مطابق آگے بڑھنا ہوگا ۔مملکت خداداد میں ریاست مدینہ کا نظا م ایک بار پھر برپا کرنا ہوگا تاکہ بقول قائداعظم ہم یہاں اسلام کے سنہری اصولوں کو آزمائیں گے جو دنیا کے سامنے ایک ماڈل ثابت ہوگا اور پوری دنیا اس سے رہنمائی حاصل کرے گی ۔