مقبوضہ کشمیر میں احتجاج جاری، اندرونی ثالث مقرر کرنے کیلئے مودی سرکار کی درخواست مسترد
نئی دہلی(صباح نیوز + آن لائن + نیٹ نیوز)بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں میڈیا پر پابندیوں سے متعلق مودی سرکار سے7 روز میںجواب طلب کر لیا،سپریم کورٹ نے مودی سرکار کی جانب سے کشمیر کے معاملے پر اندرونی ثالث مقرر کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370ختم کرنے سے متعلق 14درخواستوں کی سماعت بھارتی سپریم کورٹ میں ہوئی۔ عدالت نے متفرق درخواستیں سماعت کیلئے منظور کر لیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت کو 2 نوٹسز جاری کئے گئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 370ختم کرنے سے متعلق کیس کی سماعت 5 رکنی بینچ اکتوبر میں کرے گا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں بھارتی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں میڈیا پر پابندیوں سے متعلق کیس کی سماعت بھی ہوئی۔درخواست گزار ارونادا بھاسن کی جانب سے کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کو 24روز ہو گئے ہیں اور وادی میں صحافیوں پر پابندیاں عائد ہیں۔چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے کہا ہم حکومت کو نوٹس جاری کر رہے ہیں، حکومت اس معاملے پر 7 روز میں جواب دے۔سپریم کورٹ نے مودی سرکار کی جانب سے کشمیر کے معاملے پر اندرونی ثالث مقرر کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے اس حوالے سے ریمارکس دیئے کہ ہم اس درخواست کو نہیں سن رہے۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کیلئے دائر درخواستوں پر 5 رکنی بنچ تشکیل دیدیا۔ بھارتی سپریم کورٹ میں 14 درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ کشمیری سماجی رہنمائوں شاہ فیصل اور شہلا شرلا نے بھی درخواست دائر کی۔ کشمیر ٹائمز کے ایگزیکٹو ایڈیٹر نے مقبوضہ کشمیر میں رابطوں کے ذرائع سے پابندی ہٹانے کی درخواست دائر کر رکھی تھی جس پر عدالت نے بھارت کی مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ عدالت نے ایک درخواست گزار محمد علیم سید کو اپنے والدین سے ملنے کیلئے اننت ناگ جانے کی اجازت بھی دیدی جبکہ مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو علیم سید کو سکیوری فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی گئی۔ سپریم کورٹ نے کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سیتا رام یچوری کو مقبوضہ کشمیر جانے اور اپنے پارٹی رہنمائوں سے ملاقات کی اجازت بھی دیدی۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی کا دوران سماعت کہنا تھا کہ 5 رکنی بنچ دائر درخواستوں کی سماعت اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کے گا۔
سرینگر (اے پی پی+ این این آئی+نوائے وقت رپورٹ) مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور پابندیوں کا نفاذ اور ذرائع ابلاغ کی معطلی بدھ کو 24 ویں روز بھی برقرار رہی جس کی وجہ سے وادی کشمیر کا بیرونی دنیا سے رابطہ معطل ہے۔ لاکھوں قابض بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے محاصرے میں ہیں۔ قابض حکام نے غیر قانونی بھارتی قبضے اور دفعہ 370 کی منسوخی کے مذموم اقدام کیخلاف کشمیریوں کے احتجاج کو روکنے کیلئے مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار تعینات کر رکھے ہیں اور سخت کرفیو اور پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے مقبوضہ علاقہ خاص طور پر سرینگر مکمل طور پر ایک فوجی چھائونی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ تاہم لوگ کرفیو، پابندیوں اور فوجی جمائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مسلسل سڑکوں پر آکر بھارتی قبضے اور مذموم اقدام کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ سخت محاصرے کے باعث مقبوضہ علاقے میں بچوں کی غذا، ادویات اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریہ کی سخت قلت پیدا ہوچکی ہے۔ مقامی پولیس کو بھی غیر مسلح کرکے بندوقوں کی جگہ ڈنڈے تھما دیئے گئے ہیں جس سے اہلکاروں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ اسلحہ واپس لینے کی وجہ سے مقامی پولیس میں مایوسی پھیل گئی۔ امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق اعلی افسران سے بدلہ لیے جانے کے خوف سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مقبوضہ کشمیر کے 30 پولیس افسران نے بتایا کہ جب سے وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کی حیثیت کو ریاست سے وفاقی اکائیوں میں تبدیل کیا ہے، انہیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور چند کیسز میں نئی دہلی کی جانب سے انہیں غیر مسلح کردیا گیا ہے۔ حریت کارکنوں نے غیر قانونی بھارتی قبضے اور جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے بھارتی اقدام کے خلاف جذبہ آزادی سے سرشار بہادر کشمیری نوجوانوں اور وطن کے بیٹوں کی بھر پور مزاحمت کو سراہتے ہوئے ان سے اپیل کی ہے کہ وہ ثابت قدم رہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق حریت کارکنوں کی طرف سے پوسٹروں اور پمفلٹوں کے ذریعے کی جانے والی اپیل میں کہا گیا کہ ہم متحد ہیں اور بھارت کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کریں گے۔ اپیل میںکہا گیا کہ ہمارا جذبہ عالمی برادری کو ہمارا ساتھ دینے اور ہمیں ہمارا ناقابل تنسیخ حق، حق خود ارادیت دلانے کیلئے آواز بلند کرنے پر مجبور کردے گا۔ حریت کارکنوںنے پوسٹروں اور پمفلٹوں کے ذریعے کہا کہ ہم اپنے پاکستانی بہن بھائیوں سمیت ہر اس فرد کے شکر گزار ہیں جو ہمارے حقوق کے لیے آواز بلند کررہا ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے اور علاقے میں کرفیو اور دیگر پابندیاں عائد کرنے کے باوجود کم از کم 500 احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ فرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق ایک سینئر حکومتی ذرائع نے انہیں بتایا کہ نئی دہلی کی جانب سے مقبوضہ وادی کی خودمختاری کو ختم کرنے وہاں کرفیو نافذ ہونے کے باوجود 500 مرتبہ احتجاج کیا جاچکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مقبوضہ وادی میں پہلے سے موجود 5 لاکھ بھارتی فوجیوں کی تعداد کو مزید بڑھاتے ہوئے ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کردی گئی تھی۔ ایک سینئر حکومتی ذرائع نے بتایا کہ 5 اگست سے کم از کم 500 مرتبہ احتجاج اور پتھر پھینکنے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ سری نگر میں ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک تقریباً 100 شہری زخمی ہوچکے ہیں جبکہ 300 پولیس اور 100 نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کو چوٹیں آئیں۔ خبررساں ادارے کو انہوں نے بتایا کہ ناکہ بندی کے بغیر مظاہروں کی تعداد مزید زیادہ اور بڑی ہوسکتی ہے کیونکہ عوامی مخالفت اور غصے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے ہر وقت کوششیں کی جارہی لیکن ابھی یہ سب کچھ کام کرتا نظر نہیں آرہا جبکہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں اضطراب پھیل رہا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مواصلاتی رابطوں کے معطل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سکیورٹی فورسز کو دیہی علاقوں سے متعلق معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں رپورٹ میں اپنے رپورٹر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اس خلاف ورزی کے اقدام پر رہائشی معمولات زندگی پر واپس آنے سے انکار کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل محاصرے، کرفیو اور پابندیوں کی وجہ سے سیاحت کی صنعت بھی شدید متاثر ہوئی ہے اور پانچ ہزار سے زائد ہوٹل بند ہوگئے جبکہ مالکان نے کم از کم دس ہزار ملازمین کو فارغ کر دیا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ہونے والے سخت نقصان کی وجہ سے وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے سے قاصر ہیں۔ سرینگر کے ایک ہوٹل مالک نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوںکو بتایا کہ پانچ اگست کو جب نریندر مودی کی حکومت نے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور پابندیاں لگائیں اس وقت سے اس کا کام ٹھپ ہے جس سے اسے اپنے ملامین کو فارغ کرنا پڑا کیوںکہ ان کے پاس انہیں دینے کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں۔ مقبوضہ وادی کشمیر کے کچھ علاقوں میں تین ہفتوں کے بعد آج (بدھ کو) ہائی سکول دوبارہ کھل گئے لیکن کرفیو اور پابندیوں کی وجہ سے طلبہ سکولوں میں حاضر نہیں ہوسکے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ وادی میں ہائرسیکنڈری سکول تاحال بند ہیں جبکہ سرکاری ذرائع نے بھی اعتراف کیا ہے کہ گو کہ ہائی سکول دوبارہ کھول دیئے گئے لیکن استاتذہ اور دیگر عملے کی محدود حاضری دیکھنے کو ملی جبکہ طلبہ بالکل حاضر نہیں ہوسکے۔