امریکہ نے 98 فیصد مطالبات مان لئے معاہدہ آج متوقع، طالبان: افغانستان میں موجود رہیں گے: ٹرمپ
واشنگٹن، کابل (نوائے وقت رپورٹ+آن لائن) افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ قطر میں امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ دوحا میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے نویں دور کا آج پانچواں روز ہے۔ افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی کے مطابق طالبان ذرائع کے مطابق امریکا نے ان کے 98 فیصد مطالبات مان لیے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان مکمل فائر بندی ہو گی، امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں اپنے آپریشنز روک دیں گے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ معاہدے کا باضابطہ اعلان آج متوقع ہے اور اس اعلان کے بعد افغان انٹرا ڈائیلاگ شروع ہوں گے۔ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ہم افغانستان کا نام ’’اسلامی امارات افغانستان‘‘ رکھنا چاہتے تھے اور امریکا مان گیا ہے۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ، قطر میں ہونے والے مذاکرات جب آخری اور حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں تو ایسے میں ٹرمپ انتظامیہ کے اہم ترین افراد کے درمیان موجود تضادات اور اختلاف رائے کھل کر سامنے آگیا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف معاہدے پر دستخط کا عمل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ بلکہ اس بات کے بھی خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ کہیں ایک مرتبہ پھر امریکی انتظامیہ کے اہم ترین افراد کی جانب سے استعفوں کا سلسلہ شروع نہ ہوجائے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے پینٹاگون میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا لفظ استعمال نہیں کریں گے۔ دلچسپ امر ہے کہ امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ روز ہی انڈیانا میں سابق امریکی فوجیوں کے لیے منعقدہ ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں کی وطن واپسی کا خواہش مند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کبھی بھی افغانستان میں اپنی فوج کو مستقل رکھنے کا خواہش مند نہیں رہا تھا۔ امریکی سی آئی اے میں بحیثیت ڈائریکٹر فرائض سر انجام دے چکنے والے مائیک پومپیو نے دعوی کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واضح ہدایات ہیں کہ جلد از جلد افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کو ممکن بنایا جائے۔ جنرل ڈنفورڈ نے بات چیت میں اس بات کا عندیہ دیا کہ امن سمجھوتہ جوں کی توں والی صورتحال کو تبدیل کرے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ شرائط پر مبنی ہوگا۔ جنرل جوزف ڈنفورڈ نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت ایک ایسے وقت میں کی ہے کہ جب دوحہ میں جاری امن معاہدے پر دستخط زیادہ دور کی بات نہیں رہ گئی تھی لیکن اب ملین ڈالرز کا یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا واقعی دستخط ہو جائیں گے؟ کیونکہ مبصرین کے مطابق حالات سے ایسا لگ رہا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کا پینٹاگون اور امریکی ڈیپارٹمنٹ ایک پیج پر نہیں ہیں۔ دریں اثناء امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی ریڈیو کو انٹرویو میں کہا ہے کہ طالبان سے امن مذاکرات کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 8600 کر دیں گے ہم افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے افغانستان سے امریکہ پرکوئی حملہ ہوا تو ہم بھر پور طاقت کیساتھ واپس آئیںگے۔آئی این پی کے مطابق ٹرمپ نے پھر افغانستان کو دہشتگردی کی ہارورڈ یونیورسٹی قرار دیتے کہا ایک کروڑ لوگوں کو مار دوں تو امریکہ یہ جنگ منٹوں میں جیت سکتا ہے لیکن امریکہ ایسا نہیں چاہتا۔