دوران حراست بھارتی فوجی پاکستان مخالف نعرے لگانے پر مجبور کرتے: کشمیری نوجوان
نئی دہلی(کے پی آئی)بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 28 روز سے جاری کرفیو کی وجہ سے وادی میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔کشمیری نوجوان خطے کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد کرفیو کے باوجود آئے روز مظاہرے کر رہے ہیں اور بھارتی فورسز انہیں دبانے کے لیے تشدد کا سہارا لے رہی ہیں۔بھارتی فورسز نے تقریبا ایک مہینے کے دوران ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو عقوبت خانوں میں قید کر لیا ہے۔انہی عقوبت خانوں میں 16 دن گزارنے والے علی رضا (فرضی نام) 29 اگست کو رہا ہونے کے بعد دہلی پہنچے۔ کے پی آئی کے مطابق برطانوی اخبار سے بات کرتے ہوئے نوجوان نے خود پر ہوئے ظلم کی داستان سنائی۔علی رضا نے بتایا عید کا دوسرا دن تھا، جو معمول کی طرح گھر والوں کے ساتھ گزارا کیونکہ باہر کرفیو لگا تھا لہذا باہر نکلنے کے حالات نہیں تھے۔گھر کا دروازہ زور سے بجا جیسے فورا نہ کھولا تو توڑ دیا جائے گا۔بہنوں کو اندر کمرے میں بھیج کر میں دروازہ کھولنے چلا گیا۔ دروازہ کھولا تو آٹھ، دس فوجی گھر کے اندر گھس آئے۔ان کے پاس فہرست تھی جس میں گھر کے تمام افراد کی تفصیل لکھی تھی۔ انہوں نے میرا نام پوچھا اور پھر فہرست پر مارک کر کے مجھے ساتھ چلنے کو کہا۔انہوں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور گاڑی میں سوار کرایا۔ گاڑی لگ بھگ ڈھائی تین گھنٹے مسافت طے کر کے کسی مقام پر پہنچی جہاں ہمیں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔پہلے دن تو کوئی پوچھنے نہیں آیا لیکن دوسرے دن تین، چار فوجی آئے اور پوچھ گچھ شروع کر دی۔ بھارتی فوجی سب سے سوال کر رہے تھے تم لوگ پاکستان پاکستان کیوں کرتے رہتے ہو؟ ہمارے فوجیوں پہ پتھر کیوں پھینکتے ہو؟پھر انہوں نے ہمیں جے شری رام اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے کو کہا لیکن کمرے میں موجود ہم چار، پانچ نوجوانوں نے نعرہ نہیں لگایا تو انہوں نے غصے میں آ کر ہم پہ تشدد کیا۔ہمیں پھر الگ الگ کوٹھریوں میں بند کر دیا گیا۔ ہمارے کپڑے اتروا دیئے، پائوں سے باندھ کر الٹا لٹکا دیا۔میرے محلے کے دو نوجوان تشدد کے باعث کومہ میں چلے گئے، سر پر گہری چوٹ کے باعث ان کے دماغ میں خون جم گیا تھا۔ایک میجر میری کوٹھری میں آیا اور مجھے کہا کہ پاکستان مردہ باد کہوں، لیکن میں نے انکار کیا تو اس نے میری آنکھ پر زور دار مکا مارا، جس کی وجہ سے میں کئی دن اس آنکھ سے دیکھ نہیں سکا، اور ابھی بھی دھندلا دکھائی دیتا ہے۔کچھ نوجوان لڑکوں نے تشدد سے بچنے کے لیے جے شری رام کے نعرے لگا دیے تاکہ عقوبت خانے سے نجات مل جائے۔ ان کو ایک ہفتے بعد چھوڑ دیا گیا۔