• news

چہرے دیکھ کر فیصلہ کرنیوالا جج ہوتا ہے نہ ایسے شخص کو منصب پر رہنے کا حق: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے کہا ہے کہ پنجاب بار کونسل میں سینٹر آف ایکسیلنس کا قیام پنجاب بار کا احسن اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نوجوان وکلا کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہے اور تمام مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ جج اور وکیل دونوں انصاف کے ساتھ جڑے ہیں۔کسی حق دار کو اگر وکیل حق دلوائے گا۔ تو اسکا بھی وہی رتبہ ہو گا جو اللہ کے ہاں جج کا ہو گا۔ بیرسٹر خاور قریشی کے شکرگزار ہیں جنہوں نے عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کا کیس لڑا۔ قبل ازیں بیرسٹر خاور قریشی نے نوجوان وکلاء کو وکالت کے حوالے سے لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی عدالت میں کلبھوشن کے خلاف کیس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ نوجوان وکلاء کو عالمی مقدمات پر بھی نظر رکھنی چاہیئے اور عالمی عدالت کے فیصلوں کو پڑھنا چاہیئے۔ وکیل ساری زندگی سیکھنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں مس کنڈکٹ میں ملوث وکلاء کا کیریئر ختم ہوجاتا ہے۔ قبل ازیں چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں جنرل ٹریننگ پروگرام 2019-20 کے تحت ایک ہفتہ پر تربیتی کورس کے افتتاحی سیشن میں خصوصی شرکت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج کا منصب اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے عطا کیا جاتا ہے اور یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے جسے ہم سب نے احسن انداز میں پورا کرنا ہے۔ جج کیلئے بہت ضروری ہے کہ وہ قانون پر مکمل دسترس رکھے اور تمام فیصلے قانون کے مطابق کرے۔ چہرے دیکھ کر فیصلے کرنے والا جج نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسے شخص کو جج کے منصب پر فائز رہنے کا کوئی حق ہے۔ ایک سول جج کو بھی چاہیے کہ وہ خود کو سپریم کورٹ کا جج سمجھ کر فیصلہ سنائے۔

ای پیپر-دی نیشن