سفارت کار تنخواہ کے عوض محب وطن بنتے ہیں
تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ میں اگر گزشتہ ستر سالوں کا جائزہ لیا جائے توہم یقینا اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے کئی مواقع اغیار پر اندھا اعتقاد کرکے پاکستان کی لیڈر شپ نے کشمیر کی آزادی کے مواقع خود کھوئے ہیں ، ہماری پالیسی اغیار کے بھروسوں یا انکے سیاہ کارناموںمیں انکا ساتھ دینے میں اتار چڑھائو کا شکار رہی ہے ۔ کبھی دوستی ، کبھی دشمنی ، اس صورت میں ہم پاکستان کے ان سیاستدانوں کے تجزیوں کو بھول جاتے ہیں جو صرف فروعی باتیں نہیں کرتے تھے بلکہ عالمی حالات ، تعلقات ، مستقبل کے معاملات پر بھر پور نظر رکھتے تھے ، ذولفقار علی بھٹو نے کتاب میں تحریر کیا تھا کہ نہرو کی سوچ وہی ہے جو آر ایس ایس کے لیڈر ساوارکرکی تھی یہ اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتے ہیں اور بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیاگیا ۔ ہمیں اسی پیرائے میںراج ناتھ کی دھمکی کو بھی لینا چاہئے ، یہ دھمکی نہیں بلکہ ایک سوچ ہے۔ اسی طرح 1957 میں جب حسین شہید سہروردی سے اسوقت کے امریکی صدر نے پاکستان میں امریکی افواج کیلئے اڈے مانگے تو انہوںنے شرط رکھی کہ امریکی صدر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں مدد کریں اڈہ دیدیا جائے گا ، مورخ بتاتاہے کہ بات چیت مثبت سمت جانے لگی تو میجر جنرل سکندر مرزا نے بزور طاقت ان سے استعفے لے لیا ،سہروردی نے اپنے بعد کے انٹرویو میں یہ کہا کہ اقتدار آنے جانے والی چیز ہے مگر کشمیر ہاتھ سے نکل گیا۔ ایک موقع پاکستان کو دوست ملک چین نے فراہم کیا جب 1962 ء میں چین اوربھارت کی جنگ شروع ہونے لگی تو چین کی حکومت نے ایوب خان کو پیغام دیا کہ چین کی افواج سرحدوںپر ہیں یہ موقع سب سے بہتر ہے اپنی افواج کشمیر میں داخل کردو چونکہ بھارت کسی قرارداد یا معاہدہ کو نہیں مانتا مرحوم ایوب خان چین کی بات کو نظر انداز کرکے اس وقت کے امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم کی مشوروںپر عمل کرتے ہوئے کشمیر میں افواج بھیجنے کی بات سنی ان سنی کردی ۔ایک موقع پر ایوب خان نے 1965 میں ــ’’میرے عزیز ہم وطنوں ‘‘ کا تاریخ ساز خطاب کیا مگر نیت حکومت کو بچانا تھا چونکہ محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں ایوب خان حکومت کے خلاف تحریک چل چکی تھی جس سے توجہ ہٹانے کیلئے ایوب خان سرگرم ہوگئے۔یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ 1948 اور 1949 میں نہرو کی درخواست پر اقوام متحدہ میں قرار دادین منظور ہوئیں اور استصواب ،حق خود ارادیت کی بات کی گئی ، مگر یہ نام نہاد عالمی ادارے کچھ نہ کرسکے اس میں جہا ں ۹۹ فیصد اقوام متحدہ کا قصور ہے وہیں ایک فیصد ہی صحیح مگر کشمیر کا مقدمہ لڑنیوالے پاکستان میں سالانہ کی بنیاد پر صرف مطالبے ہی کئے ۔اور بھارت جیسے ملک کے ساتھ کبھی دوستی کبھی دشمنی کا مظاہرہ کیا جس سے ہمارے دوست ممالک بھی ہماری پالیسی نہ سمجھ پائے اور آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑرہا ہے جب کشمیروں کا خون خود آواز دے کی عالمی ٹھیکیداروں کو پکار رہا ہے کہ اسکا تصفیہ کرو ۔ کشمیر کے نہتے مسلمان بھارت کا تمام ظلم سہ رہے ہیں ، بھارت نسل کشی میں مصروف ہے، عالمی اداروں کی سنجیدہ کاوشوںکی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاکر اب وہ آسام میں مسلمانوںپر پر ظلم توڑنے کے نقش قدم پر چل پڑا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کیلئے مسئلہ صرف کشمیر تک محدود نہیں بلکہ مسلمانوں کی طرف اسکا رخ ہے اور علاقے میں مسلمانوں کیلئے آواز اٹھانے کیلئے پاکستان کے علاوہ کوئی نہیں ، اسلئے اسکی ناجائز نظر پاکستان پر بھی ہے جسکے لئے کوئی موقع وہ ہاتھ سے نکلال دینے پر تیار نہیں۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے عالمی اداروںکی خاموشی اور بھارتی بربریت کے باوجود پاکستان ہر لمحے اور ہر جگہ مذاکرات کیلئے تیار ہے ۔ جسے بھارت ہر گز کمزوری نہ سمجھے ، آج کی دنیا میں جنگ کسی مسئلے کا حل نہیںمذاکرات تو بہرحال کرنا پڑینگے ۔پاکستان کی قیادت کے پاس اسوقت سب سے مضبوط فورم اسلامی تنظیم کا ہے گو کہ اس میں چند ممالک اپنے مفادات کی وجہ سے کھل کر بھارت کی مذمت سے قاصر ہیں مگر پاکستان کو اپنی کوششیں جاری رکھنا ضروری ہیں ۔میںنے پہلے بھی کالم میں تحریر کی تھا ہماری وزارت خارجہ وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرسکتی ہے ، آج وزیر خارجہ ، اور وزیر اعظم خود دنیا کے حکمرانوں سے رابطہ کرکے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور کشمیر کا مقدمہ پیش کررہے ہیں جس میں یقینا انہیں کامیابی ہوگی اور امید ہے اسکا مظاہرہ ستمبر میں وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے دوران ہوگا جب کہ مودی بھی وہاں موجود ہوگا ۔ اگر بیرون ملک تعنیات سفارت کار واقعی ہی اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے نبھا رہے ہوتے تو وزیر اعظم، وزیر خارجہ ، اور پاکستان کیلئے دنیا کواپنا موقف پیش کرنے میں زیادہ آسانی ہوتی ، مگر افسوس اس بات کا ہے اربوںروپے سے قائم سفارت خانے ، اس میں موجود سفارت کار جن پر عوام کے ٹیکسوںکو اربو ںروپیہ خرچ ہوتا ہے وہ بیرون ملک اپنی ذمہ داریا ں احسن طریقے سے نہیں نبھاتے رہے ، نہ وہ ہی بیرون ممالک پاکستان کمیونٹی کے مسائل حل کرنے کے اہل ہیں اور نہ ہی پاکستان کو عزت و وقار دلانے کی تگ و دو میں اپنا کردار کرتے رہے ہیں ۔ کم از کم سعودی عرب میں پاکستانی سفارتکاروںکو میں یہاں گزشتہ تیس سال سے دیکھ رہا ہوں ماسوائے دو ایک ہمدرد جو حکومت سے تنخواہ کے عوض پاکستان کے محب وطن نہیں بلکہ دل سے محب وطن تھے جبکہ اکثریت کی محب وطنی پاکستان سے ملنے والی تنخواہ کے عوض ہوتی ہے ۔ وہ کمیونٹی کے مسائل کا حل تو کیا بلکہ کمیونٹی کوتقسیم کرنے پر زیادہ ایمان رکھتے ہیں ۔