زیرحراست ہلاکتیں جاری، جھنگ میں 13 سالہ نوجوان مار ڈالا، 5 اہلکار معطل
جھنگ (نوائے وقت رپورٹ، نامہ نگار) دنیا بدل گئی لیکن پنجاب پولیس کا رویہ نہ بدل سکا۔ جھنگ میں پولیس کی حراست میں تشدد سے طالب علم چل بسا۔ 13 سالہ نوبہار نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہلاکت کے بعد لواحقین نے احتجاج کیا۔ لواحقین کا کہنا تھا کہ پولیس نے چند روز قبل ہمارے 3 بچوں کو گھر میں داخل ہوکر پکڑا تھا اور رشوت مانگ رہے تھے جو ہم نہ دے سکے جبکہ آج ہمیں معلوو ہوا کہ پولیس کے تشدد سے نویں جماعت کا طالب علم 13 سالہ نوبہار جاں بحق ہوگیا ہے۔ اہلکار اس کی نعش بھی نہیں دے رہے۔ احتجاج کے دوران لواحقین نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان سے نوٹس لے کر کارروائی کی اپیل کی ہے۔ دوسری طرف ڈی پی او جھنگ عطا الرحم ننے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے انچارج سی آئی اے عبداللہ جپہ ، اے ایس آئی مبشر اور اے ایس آئی علی نواز اور دو کانسٹیبلوں لیاقت اور ثقلین کو معطل کردیا جبکہ ایس پی مزمل حسین کو واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ مظاہرین نے اے ایسآئی مبشر اور اے ایس آئی علی نواز پر الزام لگایا کہ انہوں نے نوبہار ولد زیارت نول کو حراست میں رکھا ہوا تھا۔ ڈی ایس پی سیف اللہ بھٹی نے موقع پر پہنچ کر مظاہرین سے مذاکرات کئے اور ان کو ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی مکمل یقین دہانی کروائی۔نویں جماعت کے طالب علم چودہ سالہ نوجوان کی پولیس حراست سے غائب ہونے پر اسکے ورثاء کا ایوب چوک میں احتجاجی مظاہرہ ، مظاہرین نے ٹریفک بلاک کر دی۔چک کوڑیانہ کے رہائشی زیارت نول نے اپنے رشتہ داروں اہلیان علاقہ کے ہمراہ احتجاج کرتے ہوئے الزام لگایا کہ چند روز قبل سی آئی اے سٹاف پولیس جھنگ کے اے ایس آئی مبشر احمد اور علی نواز نے اس کے چودہ سالہ بیٹے نوبہار کو جو نویں جماعت کا طالبعلم ہے گھر سے گرفتار کیا اور نامعلوم مقام پر لے گئے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ انہیں قوی شبہ ہے کہ پولیس کے دوران حراست نوبہار کومبینہ طور پر جان سے مار کر اس کی نعش نامعلوم مقام پر پھینک دی ہے۔ دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے نوبہار کو حراست میں ہی نہیں لیا۔