• news
  • image

آہِ مظلوماں

قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی پولیس والا زیر تحویل کسی بھی شخص پر تشدد کرتا ہے۔ تو وہ پانچ برس کی سزائے قید کا مستوجب ہو گا۔ ذرائع تفتیش اس قدر سائنٹفک اور ایڈوانسڈ ہو چکے ہیں کہ اعتراف جرم کیلئے اب شاید ہی کسی ملزم پر ہاتھ اٹھانے کی ضرورت پیش آئے۔ مگر مملکت خدا داد ، بالخصوص پنجاب پولیس کا کیا کیا جائے؟ جس کے بے پناہ تشدد سے آج بھی ملزم ہلاک ہو رہے ہیں۔ جس کے ذاتی عقوبت خانے ہیں۔ ملزم مر جائے، تو جہاں جی چاہے ڈمپ کر دو۔ کیونکہ ان مسکینوں کا کوئی کاغذ پتر نہیں ہوتا۔
یہ تماشہ شب و روز ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔ مگر ستمبر کی پہلی تاریخ کو رحیم یار خاں پولیس کے ہاتھوں صلاح الدین نامی ایک معذور نوجوان کے سفاکانہ قتل نے قوم کو حواس باختہ کر دیا۔ جس پر چوری کا الزام تھا جو پیدائشی معذور تھا، جو اچھے گھرانے سے تھا۔ جس کا ایڈریس اس کے بازو پر کنداں تھا جو حوالات میں معصومیت سے اپنے قاتلوں سے پوچھ رہا تھا کہ تم مجھے مارو گے تو نہیں۔ اور تم نے یہ مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟ ایک شیرخوار جیسے معصوم صلاح الدین کا یہ سوال پولیس ہی نہیں ، پورے سسٹم کے منہ پر طمانچہ ہے، حکمرانو! مظلوم کی آہ سے بچو۔ کیونکہ رب اور اس کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

epaper

ای پیپر-دی نیشن