سپریم کورٹ نے نجی سکولز کی فیسوں میں جنوری 17ء کے بعد اضافہ کالعدم قرار دیدیا
اسلام آباد (اعظم گِل/ خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے ملک بھر کے نجی تعلیمی اداروں کی سکول فیسوں کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق پنجاب اور سندھ حکومت کے قوانین کو درست قرار دیتے ہوئے نجی سکولوں کی طرف سے فیسوں میں جنوری 2017ء کے بعد اضافہ کالعدم کردیا ہے اور نجی سکولوں کی فیسوں کو جنوری 2017ء کی سطح پر منجمد کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ مذکورہ تاریخ کے بعد فیسوں میں اضافہ کے لئے تخمینہ لگا کر متعلقہ صوبوں کے ریگولیٹری اتھارٹی سے منظوری لی جائیں۔ عدالت عظمی نے مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں قرار دیا ہے کہ جنوری 2017کے بعد مجوزہ اضافہ کی منظوری مجاز اتھارٹی سے لینے کے بعد اس کا اطلاق مستقبل کے لئے ہوگا اور والدین سے اضافی رقم وصول نہیں کی جائے گی۔ تفصیلی فیصلے میں پانچ ہزار روپیہ سے زائد فیس لینے والے نجی سکولوں کی فیسوں میں بیس فیصد کمی کرنے کے تیس دسمبر 2018ء کے عبوری حکم کو برقرار رکھا ہے اور قرار دیا ہے کہ عدالت کو یقین ہے کہ اس عبوری حکم پر عمل درآمد ہوچکا ہوگا۔ جسٹس فیصل عرب نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کو پابند نہیں کیا جاسکتا اور ایسا کرنا آئین کے آرٹیکل 18سے متصادم ہے۔ اکثریتی تفصیلی فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن نے تحریر کیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 18کے تحت کاروبار اور منافع کمانے کا آئینی حق لامحدود اور قانون و قاعدے سے آزاد نہیں بلکہ قانون و قاعدے کے تابع ہے اور آرٹیکل 18کے تحت حاصل آئینی حق پر عظیم سماجی مفاد اور عوام کے فلاح کے لئے پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں لیکن ان پابندیوں کا قابل عمل، دانشمندانہ اور منصفانہ ہونا لازمی ہے۔ اگر پابندیاں آمرانہ اور ظالمانہ ہوں تو پھر عدلیہ مداخلت کرکے اس کا عدالتی جائزہ لے سکتی ہے، بصورت دیگر ریاست کو ہر جائز اور قانونی منافع بخش کاروبار اور تجارت کو ریگولیٹ کرنیکا اختیار حاصل ہے۔ اکثریتی فیصلے میں نجی سکولوں کی فیسوں کو جنوری 2017 کی سطح پر منجمد کرکے قرار دیا ہے کہ نجی سکولوں نے 2017 سے خلاف قانون فیس میں بہت زیادہ اضافہ کیا۔ جسٹس فیصل عرب نے اختلافی نوٹ میں سالانہ فیسوں میں 5 فیصد اضافے کی حد کو نامناسب قرار دیتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ فیسوں میں سالانہ 8 فیصد اضافہ کرنا زمینی حقائق سے مطابقت رکھتا ہے۔ اختلافی نوٹ میں تعلیم کے حوالے سے ریاستی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پہلے سرکاری سکولوں کی حالت بہتر تھی لیکن اب خستہ ہے جبکہ اکثر سرکاری سکولوں میں اساتذہ تک نہیں اور جن سرکاری سکولوں میں اساتذہ موجود ہیں تو وہ کلاسز نہیں لیتے۔ اکثر اساتذہ سرکاری سکولوں سے غیر حاضر ہوتے ہیں لیکن جو اساتذہ غیر حاضر ہوتے ہیں وہ بھی سرکاری خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ سرکاری سکولوں میں زیادہ تر اساتذہ کے پاس متعلقہ مضمون پڑھانے کا تجربہ نہیں ہوتا۔ اس طرز عمل کی وجہ سے، سرکاری اور نجی سکولوں کے تعلیم یافتہ بچوں میں قابلیت کا واضح فرق نظر آتا ہے۔ نجی سکولوں سے تعلیم یافتہ بچوں کو نامور یونیورسٹیز میں داخلے اور روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔ ایک دہائی قبل جو خاندان سرکاری سکولوں میں اپنے بچے بھیجتے تھے وہ اب سہولیات میں فقدان کی وجہ سے نجی سکولوں میں بچے داخل کرا رہے ہیں۔ نجی سکولوں میں سرکاری سکولوں کی نسبت تعلیم کا معیار بہتر ہے جبکہ آج کے دور میں نجی سکول اور سرکاری سکول کے درمیان تعلیمی معیار کو آرام سے پہچانا جا سکتا ہے۔ سکول فیس سے گھریلو بجٹ متاثر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے خاندان بچوں کو نجی سکولوں میں بھیجتے ہیں، اکثر والدین کی جانب سے سرکاری سکولوں کی تعلیم بہتر نہ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ریاستی پالیسیوں کو ملک میں تعلیم کی شرح میں کمی کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نااہل پالیسیاں پاکستان میں تعلیمی خستہ حالی کا باعث ہیں۔ کئی دہائیوں سے کچھ نجی سکولوں نے بہتر تعلیم فراہم کرنے کی وجہ سے نام کمایا، ایک مختص شعبے کی سروس کو آٹے، دودھ یا کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔