ہوسکتا ہے فضل الرحمٰن سے پہلے پیپلز پارٹی کال دیدے: خواتین رہنما پی پی
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی خواتین رہنمائوں نے کہا ہے کہ حالات بدل رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان سے پہلے پی پی پی کال دے دے، وزیراعظم پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر وزیراعظم پہلے دن سے کشمیر کے سفیر بنتے تو آج تک 40ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کر چکے ہوتے۔ ملک میں بیروزگاری، مہنگائی اور معیشت کا برا حال ہے لیکن وزیراعظم کی ٹیم ملک میں انتشار پھیلا رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے سندھ پر گورنر راج لگانے، فارورڈ بلاک بنانے اور اب 149 لگانے کی کوشش کی ہے لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ہوتے ہوئے سندھو دیش نہیں بن سکتا کیونکہ پیپلزپارٹی وفاق کی زنجیر ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو کچھ ہوا اس کے ذمے دار صدر پاکستان ہیں کیونکہ اگر وہ کہتے کہ پارلیمان پورا ہوگا تو میں خطاب کروں گا تو یہ صورتحال سامنے نہ آتی۔ وزیراعظم کے مظفرآباد کے جلسے میں اداکاروں، گلوکاروں اور بلے بازوں کو متعارف کرایا گیا، اس سے تو اب مودی کانپ رہا ہوگا ؟ آرایس ایس 1925 سے بنی ہے لیکن ہمارے وزیراعظم پھر بھی مودی کے منتخب ہونے کی دعائیں کرتے رہے۔ ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر نفیسہ شاہ، ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات پلوشہ خان اور سینیٹر روبینہ خالد نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیف میڈیا کوآرڈینیٹر نذیر ڈھوکی اور کیپٹن واصف بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ وزیراعظم 40دن بعد مظفرآباد میں پہنچے جبکہ کشمیری 40دنوں سے ایک کرب سے گزر رہے تھے اور لوگ انتظار کر رہے تھے کہ وزیراعظم کوئی بڑا اعلان کریں گے لیکن وزیراعظم نے صرف یہی کہا کہ میں دنیا میں کشمیر کا سفیر بنوں گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جو وفاق پر حملہ کرے گا ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔ صدر پاکستان نے پہلے سپریم کورٹ پر، پھر الیکشن کمیشن اور اب پارلیمنٹ پر حملہ کیا ہے۔ ایک دن پارلیمنٹ کا اجلاس بلاتے ہیں تو دوسرے دن کینسل کر دیتے ہیں۔ بارڈرز پر پاک فوج کے جوان شہید ہو رہے ہیں لیکن ایل او سی کے دوسری طرف وزیراعظم اپنے جلسے میں گلوکاروں کو بلے بازوں کو متعارف کرا رہے ہیں۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ 149 کا اطلاق سب سے پہلے پشاور میں ہونا چاہیے۔ پشاور میں بی آرٹی منصوبہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پشاور کے مسائل کو سامنے نہیں لایا جاتا لیکن کراچی میں کچرے کی باتیں سب کرتے ہیں۔