• news
  • image

ایک ہوتا ہے پاکستانی، ایک ہوتا ہے پاکستانی نژاد!!!!!!

بڑی خبریں چلیں کہ باکسر محمد وسیم نے دبئی میں حریف کو ناک آؤٹ کر دیا، لوگ خبر سن کر خوش ہوئے خبر سوشل میڈیا پر بہت شیئر کی گئی، مبارکباد کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ خوشی خوشی محمد وسیم پاکستان واپس پہنچے۔ ہوائی اڈے پر وہی مناظر تھے جیسے کسی زمانے میں نواز شریف کو کہا جاتا تھا قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جب نواز شریف نے قدم بڑھا کر دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھا تو کوئی بھی ساتھ نہیں تھا ایسا ہی تکلیف دہ منظر اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر تھا۔ سوشل میڈیا پر ڈھیروں مبارکبادیں وصول کرنے کے بعد محمد وسیم وطن واپس پہنچے تو کسی شخصیت نے استقبال کے لیے ائیر پورٹ پر آنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ باکسر کو ٹیکسی میں رخصت ہونا پڑا۔ یہ لمحات کسی بھی کھلاڑی کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کرکٹ کے علاوہ تقریبا تمام کھیلوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا ہے۔
محمد وسیم دبئی میں پروفیشنل مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچے تھے۔ انہوں نے فلپائنی باکسر کو پہلے ہی راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر کے کامیابی حاصل کی۔ محمد وسیم نے فلپائن باکسر کو ناک آؤٹ کیا اور یہاں اپنوں نے باکسر کو ناک آؤٹ کر دیا۔ کوئی کھلاڑی کہاں تک لڑ سکتا ہے، وہ دنیا کو ہرا سکتا ہے لیکن اپنوں کو نہیں ہرا سکتا۔ اسکواش لیجنڈ جہانگیر خان کہتے ہیں کہ میں ساری دنیا کو اسکواش سمجھا سکتا ہوں دنیا سمجھ بھی جائے گی لیکن پاکستان میں کوئی نہیں سمجھے گا۔ باکسر محمد وسیم کا کہنا ہے ٹاپ فائیو میں آ کو عالمی مقابلہ کرنا چاہتا ہوں۔ دبئی میں فائٹ سے قبل افریقی حریف کو بھی شکست دی تھی۔ مزید مقابلے جیت کر تاریخ رقم اور ملک کا نام روشن کروں گا۔ انہوں نے دبئی میں ہونے والی کامیابی کو کشمیری بھائیوں کے نام کیا تھا۔ وسیم گزشتہ کئی برس سے پروفیشنل باکسنگ میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کر رہے ہیں ماضی میں انہیں کورین پروموٹر نے سپورٹ کیا تھا وسیم بتاتے ہیں کہ ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ کورین شہریت لے کر ان کے ملک کی نمائندگی کروں میں نے وطن کی محبت میں شہریت ٹھکرائی تھی۔
محمد وسیم پر لکھتے لکھتے خیال آیا کہ مرزا اقبال بیگ کو فون کیا جائے۔ سینئر اینکر پرسن کو فون کیا تو کہنے لگے محمد وسیم کے ساتھ وطن واپسی پر جو رویہ اختیار کیا گیا یہ ہماری اجتماعی بے حسی کی بدترین مثال ہے۔ باکسنگ کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد کھیلیں صوبوں کے اختیار میں جانے سے صرف اور صرف تباہی ہوئی ہے۔ اب ایک بین الصوبائی رابطے کی وزرات ہے اس کا برا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ باکسنگ کو چلانے والے عہدوں کے لیے لڑتے رہتے ہیں۔ان حالات میں باکسرز کے مسائل کون حل کرے گا۔ کہیں ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیوں کو این او سی نہیں ملتے، کہیں سنوکر والوں کو ٹائٹل جیتنے کے باوجود کوئی نہیں پوچھتا اور ہم نکلے ہیں دنیا پر حکمرانی کرنے کے لیے۔
حقائق، شواہد، واقعات اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہم اصل کے بجائے نقل اور خالص کے بجائے ملاوٹ شدہ کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ کوئی ہمیں لاکھ سچائی کی دلیلیں دے اور وہ سچا بھی ہو ہم ماننے سے گریز کریں گے اور تسلیم کرتے ہوئے ہچکچاہٹ سے کام لیں گے۔ ہم کسی بھی چیز کی نقل محنت سے بنا لیں گے لیکن اصل کی طرف نہیں جائیں گے۔ یوں کہیئے کہ ہم ایک اچھے فالور ضرور ہیں لیڈ کرنے میں کمزور واقع ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہم ملاوٹ کو پسند کرتے ہیں اچھی پیکنگ میں چیز کتنی ہی غیر معیاری اور بری کیوں نہ ہو ظاہری خوبصورتی سے متاثر ہو کر فوراً اس طرف کھنچے چلے جائیں گے اور پھر شوق شوق میں اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کر کے یہ قومی فریضہ بھی انجام دیں گے۔
باکسر محمد وسیم کو ہی لے لیں، وہ بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں، سبز ہلالی پرچم سر بلند کرتے ہیں، ملک کا نام روشن کرتے ہیں یوں کہیے کہ وہ خالص پاکستانی ہیں لیکن آج تک انہیں وہ پذیرائی نہیں مل سکی جس کے وہ حقدار ہیں۔ کیونکہ وہ خالص پاکستانی ہیں۔ حکام کو اس لیے نہیں پسند کہ پیکنگ اچھی نہیں، ملاوٹ نہیں ہے، ذرا خالص ہے سو سب اس سے دور بھاگتے ہیں۔
دوسری طرف باکسر عامر خان ہیں۔ پاکستانی نژاد برطانوی باکسر ہیں۔ مقابلوں میں اسی ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انگلینڈ کے نمائندے ہیں۔ چونکہ اچھی پیکنگ میں ہیں، ملاوٹ ہے تو سب انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ ملک کے تمام بڑے سرکاری دفاتر میں اعلی شخصیات ان سے ملاقات کرتی ہیں۔ عزت دی جاتی ہے۔ اہمیت دی جاتی ہے لیکن جو خالص پاکستانی باکسر ہے اسے کامیابی کے بعد کوئی ائیر پورٹ لینے نہیں آتا۔
عامر خان کو اس لیے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ساکھ بہتر ہو گی۔ اچھا پیغام جائے گا لیکن اپنے باکسر کو نظر انداز کرنے سے دنیا میں جانے والے برے پیغام کی کسی کو فکر نہیں۔ ہمیں پاکستانی نژاد پسند ہیں پاکستانی نہیں۔
یہی حال سنوکر والوں کا ہے اپنے ہیں تو کوئی پوچھتا نہیں، ٹیبل ٹینس والوں کو بیرون ملک نہیں جانے دیا گیا لیکن کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔ سب اپنے اپنے حصے کی خانہ پُری کریں گے کھلاڑی روتے رہیں گے اور کھلاڑیوں کے نام پر لاکھوں کروڑوں انتظامی بجٹ سے فائدہ اٹھانے والے اپنے معاہدے پورے کرتے رہیں گے۔ہم ملاوٹ پر بنیادیں رکھتے ہیں، مصنوعی چیزوں کو نمایاں کرتے ہیں، دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں، الفاظ کا ہیر پھیر کرتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ حقیقی کامیابی حاصل کریں گے۔ ایسے معاملات میں مثال حکمران قائم کرتے ہیں، متعلقہ وزارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار نبھائے۔ شاید کہ انہیں ہوش آئے، انہیں سوچ آئے اور کھلاڑیوں کی زندگی میں آئے ورنہ ہم دنیا سے جانے والوں کو یاد کرنے میں بھی بہت مہارت رکھتے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن