عمران فاروق قتل کیس، برطانیہ پاکستان کو ثبوت دینے پر رضا مند، سزائے موت کا امکان ختم
لندن (نوائے وقت رپورٹ) متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عمران فاروق کے قاتلوں کو سزائے موت ہونے کے امکانات ختم ہوگئے، سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی پر برطانیہ پاکستان کو کیس کی تمام شہادتیں دینے پر رضامند ہوگیا۔ برطانیہ میں پاکستان کے وکیل ٹوبی کیڈمن رضامندی کا خط لے کرپاکستان پہنچ گئے، خط اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کر دیا گیا۔ یو کے سینٹرل اتھارٹی کے مطابق برطانوی شواہد کسی دوسرے مقصد کیلئے استعمال نہیں ہوں گے، شواہد کو ملزم خالد شمیم، محسن علی، معظم علی کیخلاف عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ خط کے مطابق پاکستان نے عمران فاروق کے قاتلوں کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی 26 جون 2019 کو کرائی تھی۔ 50 سالہ ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔ حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے، انہوں نے سوگواران میں اہلیہ اور دو بیٹوں کو چھوڑا تھا۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران فاروق قتل کیس میں شواہد پیش کرنے کے لیے مزید مہلت نہ دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران عدالت عالیہ کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے بتایا برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی نے پاکستان کی درخواست منظور کر لی۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ پاکستان کو شواہد دینے کے لیے رضا مند ہوگیا ہے۔دوران سماعت ہی برطانوی سینٹرل اتھارٹی کی منظوری کا خط اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا، جس پر عدالت نے کہا کہ شواہد آنے کے 2 ماہ میں ٹرائل مکمل کیا جائے۔