عمران چو مُکھی میں بھی کامیاب
عمران خان کرپشن ،بیروزگاری ،مہنگائی کے خاتمے اورکڑے احتساب کے دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ان کو معیشت کی ابتر صورتحال کا اندازہ تھامگر ان کو حکومت میں آکر معیشت کی بربادی کا علم ہوا ،انکے بقول وہ اندازوں سے کہیں بڑھ کر تھی۔مہنگائی کے خاتمے،روزگارکی فراہمی اور عوام کی زندگی آسان بنانے کیلئے معیشت کا مضبوط ہونا اولین ضرورت ہے۔عمران خان نے اسی طرف اپنی توجہ مبذول کی اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں معیشت مضبوط خطوط پر استوار ہوتی نظر آئی۔جس کی ایک جھلک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کا آغاز ہوچکا ہے۔اس منصوبے ہی سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔کرپشن کے خاتمے کیلئے عمران خان کے عزم و ارادے میں کوئی کمی نہیں آئی۔کڑا احتساب بھی جاری ہے۔پارلیمان میں قانون سازی کے حوالے سے حکومتی محاذ پسپا نظر آتا ہے،اس کی وجہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی جبکہ منتشر اپوزیشن کا قانون سازی کے حوالے سے عدم تعاون ہے۔تحریک انصاف حکومت کو بھاری مینڈیٹ تو کیا سادہ اکثریت بھی ملی ہوتی تو حالات کہیں بہتر ہوتے۔ اپوزیشن پی پی اور ن لیگ سمیت ہر پارٹی حکومت کیساتھ مشروط تعاون پر تیا رہے۔مگر یہ واحد حکومت ہے جس نے اپوزیشن کے مشروط تعاون کو مسترد کرکے ہر صورت کڑے احتساب کا سلسلہ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔عمران خان بڑے بڑے یو ٹرن لے چکے ہیںمگر احتساب پر کمپرومائز کیا گیا تو اس پارٹی کی حالت بھی ویسی ہی ہوگی جیسی زرداری پارٹی کی آخری دو انتخابات میں ہوچکی ہے۔اپوزیشن کیلئے اسکے کڑے احتساب کے باعث عمران حکومت ایک دن کیلئے بھی قابل برداشت نہیں۔وہ اس حکومت کی اس حد تک مخالفت کررہی ہے کہ قومی ایشوز پر بھی اسکے ساتھ کھڑے ہونے پر تیار نہیں۔کشمیر ایشو پربھی سیاست اور پوائنٹ سکورنگ کررہی ہے۔عمران کا ایجنڈا مختصر اور اسے عملی جامہ پہنانا مشکل نہیںمگر اسے آج چومکھی لڑنا پڑرہی ہے۔اپوزیشن کے واویلے سے نبرد آزما ہونا کوئی چیلج اور مشکل نہیں تھا تاہم درمیان میں بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں شب خون نے حکومتی توجہ اُدھر کھینچ لی۔ اس حوالے سے بھی اپوزیشن کا کردار افسوسناک رہا،پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا تو پہلا سیشن پروڈکشن آرڈرز کے مطالبات کی نذر ہوگیا،اس اجلاس میں بھی کشمیر سے زیادہ سیاست چمکائی جاتی رہی البتہ مشترکہ اعلامیہ ضرور حوصلہ افزا رہا۔اپوزیشن نے جو کچھ کشمیر پر بلائے گئے اجلاس کے پہلے سیشن میں کیا اس سے کہیں بڑھ کر صدارتی خطاب کیلئے بلائے گئے اجلاس کے موقع پر کرکے، جیلوں میں بیٹھی اپنی اپنی قیادت کے سامنے سرخرو ہوگئے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں گرفتار ارکان پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کے خلاف صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ صدارتی ڈائس کا گھیرائو کیا اور وزیر اعظم عمران خان اور حکومت کیخلاف شدید نعرے بازی کی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں۔اپوزیشن ارکان نے آصف علی زرداری، شاہد خاقان عباسی ، رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں،یہ لوگ’ گو نیازی گو‘ ’کشمیر کا سودا نامنظور ‘ ’غنڈہ گردی کی سرکار نہیں چلے گی‘ ’گلی گلی میں شور ہے عمران خان اور علیمہ باجی چور ہے ‘،’مودی کا جو یار ہے غدار ہے‘ ،’ٹرمپ کا جو یار ہے غدار ہے ‘، ’اسرائیل نامنظور‘ ،’ ووٹ کو عزت دو‘ ،’سلیکٹڈ وزیراعظم نامنظور‘ ،’چینی مہنگی ،آٹا مہنگا ،بجلی ،گیس مہنگی ہائے ہائے ‘،’ نیازی ہائے ہائے‘ ’،میڈیا کوآزاد کرو‘،’شرم کرو حیاء کرو اسیروں کو رہا کرو‘،’ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے ‘،’گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو ‘ کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن ارکان نے بینرز لہرائے جن پر ’نیب کا کالا قانون نامنظور‘ ،’ احتساب کے نام پر انتقام نامنظور‘۔ان کے مطالبات میں ایک تھا کہ میڈیا کو رہا کرو۔اوپر ہم نے جو اجلاس کی کارروائی کے دوران نعرے بازی کے بارے میں لکھا یہ تمام اخبارات میں شائع ہوا، ٹی چینلز پر نشر ہوا ہے، اس سے میڈیا کی آزادی کاا ندازہ ہوسکتا ہے۔انکے باقی نعروں کی بھی یہی حیثیت ہے یہ وہ تمام نعرے ہیں جو پی پی پی اور ن لیگ ایک دوسرے کیخلاف لگاتی رہی ہیں۔ایسے بے مقصد فضول اور چربہ نعروں سے ان پارٹیوں کی اسیر قیادت ہی مطمئن ہوسکتی ہے۔اُدھر بلاول بھٹو زرداری اپنا الگ راگ الاپ رہے ہیں۔کراچی کوڑے کرکٹ سے اٹا پڑا ہے۔امن کی بحالی کیلئے مرکز نے کئی بار کراچی کو براہ راست کنٹرول کیا اب بھی ایسی بات کی تو بلاول بپھر کر حواس باختہ ہوگئے،ایسے مشتعل ہوئے کہ جو زبان میں آیا کہہ دیا،قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ان کی وزیراعظم کیخلاف زبان درازی پر ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔اب انہوں نے کراچی کے حوالے سے کہا ’ آپ سوچیں کہ اگر کل بنگلہ دیش بنا تھا تو پھر آپ اپنا ظلم کرتے رہے۔ اگر پاکستان پیپلزپارٹی جیسی جماعت کھڑی نہ ہوگی تو کل سندھو دیش بھی بن سکتا ہے، سرائیکی دیش اور پشتونوں کا دیش بن سکتا ہے۔بلاول بنگلہ دیش بنانے والے ہر کردار کا انجام بھی مد نظر رکھیں،شاہ محمود قریشی نے درست کہا کہ سندھو دیش اور پشتونستان کی بات کرنیوالے دفن ہوگئے۔عمران خان چومکھی لڑتے ہوئے بھی کامیاب ہیں۔انکے کرپشن کے خاتمے کڑے احتساب کے تسلسل اور نااہلیت کی عدم قبولیت کے عزم میں کوئی فرق نہیں آیا۔پارٹی کے اندر بھی وہ نااہلیت غفلت اور کوتاہی کو برداشت کرنے پر تیار نہیں،مرکزی کابینہ میں وہ تبدیلی کرچکے ہیں،پنجاب میں بھی محکموں میں ردو بدل ہورہا ہے۔وہ نہ خود آرام کرتے ہیں نہ کسی ساتھی کو ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھنا برداشت کرتے ہیں۔مسئلہ کشمیر دنیاکے سامنے جس طرح اُٹھایا گیا یہ عمران خان ایسا کرسکتے تھے۔انہوں نے مودی کو پوری دنیا میں ایکسپوز کرکے رکھ دیا۔بھارت کو پسپائی پر مجبور کردیا گیا۔ایسے میں اپوزیشن کو حکومت کے شانہ بشانہ ہونے کی ضرورت تھی اور اب بھی ہے۔عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے رابطوں سے اقوام متحدہ،سلامتی کونسل،او آئی سی اور یورپی یونین سمیت دنیا کے بڑے ممالک پاکستان کے مؤقف کی حمایت کررہے ہیں۔