ٹہکا پہلوان یا اندر کا قلندر
معتبر دستیاب احادیث میں ایک حدیث " امر بالمعروف و نہی عن المنکر" ہے جسکا ترجمعہ کچھ یوں ہے کہ نیک کام کی تلقین کرو اور بْرے کام سے روکو۔ حدیث کی گہرائی میں جائیں تو فقہہ اور فکر کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کی نظر میں "نہی عن المنکر" کے تین درجات ہیں جس میں اوّل جہاد دوئم تنقید اور سوئم دل ہی دل میں بْرے کام کے متعلق نفرت کے جذبات ہیں جبکہ دوسری طرف امر بالمعروف کے زْمرے میں فکری سوچوں کے مالکوں کے نظریے کے مطابق اسکا پہلا اور اولین مقام اور ترجیح تبلیغ ہے۔ دوسرے درجے میں ترغیب کا عمل ہے کہ جب کوئی نیک کام یا عمل دیکھا جائے تو کم از کم اسکی تعریف ہی کر دی جائے تاکہ انکے تعریفی کلمات کو دیکھ کر دوسروں کے دلوں میں شائد نیک کام کرنے کا جذبہ عود کر جائے جبکہ تیسرے درجے میں اللہ سے دْعا ہے کہ وہ ہر کسی کو نیک عمل اور کام کرنے کی توفیق فرمائے۔ گْو کہ راقم کی زندگی بطور مسلمان اور انسان لاکھوں خامیوں سے عبارت ہے لیکن رَبِ ذولجلال کی ایک مہربانی ایک عنایت ضرور ہے کہ ان محرومیوں کے باوجود جب بھی اس خاکسار نے کسی محکمے یا کسی ادارے میں کوئی نیک کوئی اچھا یا کوئی فلاحی کام ہوتے دیکھا ہے تو اس نے قلم کی حْرمت کو برقرار رکھتے خْوشامد سے پرہیز کرتے اْسکے مثبت اور اگر کوئی منفی پہلو سامنے آیا ہے تو اْس پر قلم آرائی ضرور کی ہے تاکہ دوسرے لوگوں کو جہاں ایسے مثبت اور نیک کام کرنے کی ترغیب ہو وہیں ایسے پروجیکٹس میں اگر کوئی کمی بیشی ہو تو اْسے دور کیا جا سکے جسکی زندہ مثالیں کچھ یوں ہیں کہ جب پنجاب آئی ٹی بورڈ میں اس وقت کے انچارج ڈاکٹر عمر سیف، لاہور کسٹم اپریزمنٹ میں اْس وقت کے کلکٹر محمد جمیل ناصر خان نے اپنے اپنے محکموں میں جو سٹرکچرل ریفارمز کیں اور اپنے محکموں کو کارکردگی کے لحاظ سے جن بلندیوں پر پہنچایا اور پھر الحسان آئی ہسپتال میں حاجی محمد اکرم ، ثنااللہ کاکڑ، ڈاکٹر ارشد مجید اور اور علی ہجویری فری ڈرگ بینک میں ڈاکٹر ظہیر الحسن میر اور سب سے بڑھکر کسٹم کیئر ویلفیر سوسائٹی جس کے روح رواں ڈاکٹر آصف جاہ ستارہ پاکستان نے جس جانفشانی سے ان فلاحی اور رفاعی اداروں کو انکی معراج تک پہنچایا اس پر کئی تفصیلی کالم لکھ چکا ہوں۔ میری عادت ہے کہ اپنا کالم لکھنے کیلئے طے کردہ قواعد و ضوابط کے ساتھ ساتھ میں اپنے مشاہدات، معلومات اور حاصل کردہ اعدادو شمار پر بہت زور دیتا ہوں۔پچھلے دنوں مجھے اپنے ایک بھائی کے ساتھ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا جنکا پچھلے ایک سال سے اس محکمے میں اپنی رہائش گاہ کی کچھ دستاویز کے سلسلے میں آمد جامد کا سلسلہ ہے۔ میرا اس محکمے میں پہلے جانے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن بھائی صاحب جو اس دفتر کی کئی دفعہ یاترا کر چکے ہیں کہنے لگے کہ اس دفعہ دفتر کا ماحول کچھ بدلا بدلا لگتا ہے۔ بطور طالبعلم انفارمیشن حاصل کرنے کی جستجو ہمیشہ رہتی ہے ون ونڈو پر کھڑے واچ مین سے پوچھ بیٹھے کہ یار سابقہ روایت سے ہٹ کر دفتر میں بڑا ڈسپلن نظر آ رہا ہے جس پر واچ مین بولا کہ جناب جب دفتر لیٹ آنے پر بیس کے قریب ڈائریکٹروں کو explanation جاری ہو جائے اور منشائ بم جیسے مشہور زمانہ شخص کو پروٹوکال دینے کی پاداش میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر سمیت تین اہلکار معطل کر دیے جائیں تو باقی عملے کے کان تو کھڑے ہونگے۔ دل نہ کہا " جی او شیرا" کمال کر دتی اے۔ فورا واچ مین سے پوچھا اس دلیر آدمی کا نام تو بتاؤ۔ وہ بولا جناب نیا ڈی جی محمد عثمان معظم۔ لاہوری ہونے کے ناطے لاہور کی رمزیں بہت اندر سے جانتا ہوں۔ دل نے کہا کہ "ٹہکا پہلوان" بننے کی غرض سے یہ صرف کہیں کاغذی یا فرشی کاروائی تو نہی کیونکہ ہمارے معاشرے میں رنگ بازی کا عنصر ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ کھوج لگانے پر پتہ چلا کہ موصوف نے دفتر میں سٹرکچرل ریفارمز کیلیئے میٹنگز پر تو زور رکھا ہوا ہے لیکن اب اس نے پبلک کیلیئے ایک واٹس ایپ نمبر 03228888283 بھی جاری کیا ہے جس پر لوگ اپنی مشکلات ، شکایات اور تجاویز بھیج سکتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ موصوف بذات خود ترقیاتی کاموں کے موقع پر جا کر جائزے لے رہے ہیں۔ جب اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کیں تو ایک بات بہت ہی حیرانگی کا باعث بنی اور وہ تھی کہ موصوف کے تمام دورے صرف اور صرف لاہور کے جنوب میں واقع پوش آبادیوں تک ہی محدود ہیں کاش موصوف لاہور کے شمالی علاقوں کی حالت زار جاننے کیلئے کوئی دورہ کرتے اور دیکھتے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن کے اردگرد سڑکوں کا کیا حال ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ایک موریہ پْل سے بادامی باغ تک پارکنگ کا ایک جائزہ بھی لیتے اور پھر جو انکشافات اْن پر ہوتے اور انکے سْدھار کی طرف وہ کوئی توجہ دیتے تو پھر شائد شہر لاہور اور اسکا کاروباری طبقہ دل سے کہہ اْٹھتا کہ یہ بندہ "ٹہکا پہلوان نہیں اندر سے قلندر ہے"۔ اس ایک کالم میں راقم انکو اتنی تجاویز نہیں دے سکتا لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہے کہ جب تک عوام اور عملے کے براہ راست رابطے کو ان لائن منتقل نہیں کیا جائیگا کاموں میں دیری اور مالی کرپشن پر کسی صورت قابو نہیں پایا جا سکتا کیونکہ یہ راقم نہیں پوری دنیا کا سسٹم کہہ رہا ہے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ بہتر ہو کہ اگر ڈی جی صاحب تمام ذرائع ابلاغ کے سرکردہ نمائندوں کو اپنے ہاں مدعو کریں اور اپنی بریفنگ کے ساتھ ان سے تجاویز اور مشورے بھی لیں بیشک اس میڈیا کی دنیا میں بڑے بڑے قابل ذہین اور دیانتدار اپنے پیشے سے محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں جو انکے ادارے کی کارکردگی کو بڑھانے اور شفاف سسٹم لانے میں انکی بہت مدد کر سکتے ہیں۔