• news
  • image

کچرا سیاست۔۔ مولانا فضل الرحمان کا امپائر کون ہے ؟

جی نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں وہ میںنے عنوان نہیں لکھا ، آپ سمجھ رہے ہونگے کہ میں پاکستان کی سیاست کو ’’کچرہ سیاست کہہ رہا ہوں ، ملکی سیاست کو کچرہ سیاست کم بلکہ ’’منافقانہ، مفاد پرستانہ ‘‘ سیاست کہا جاسکتا ہے یہاں عنوان سے میری مراد ہے کراچی کی ’’کچرہ سیاست ‘‘ کی ، جہاں گندگی ، کچروں کے ڈھیر نے مہنگائی ، بے روزگاری سے تنگ عوام کی زندگی اجیرن کی ہوئی، یہ صورتحال صرف کراچی میں نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میںبھی ہے ، اور بارشوں کے نتیجے میںاس گندگی کا خمیازہ پورے پاکستان کو ماسوائے اسلام آباد کے بائیس کروڑ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ مگر صوبہ سندھ کا حساب نرالا ہے ، جہاں صوبائی اسمبلی کا اسپیکر اور کچھ اراکین جیلوں سے پروڈکشن آرڈر پر اجلاس میں حصہ لینے آتے ہیں ، مئیر بلدیہ تقریبا ضمانت پر سانحہ بلدیہ ٹائون اور شائد صفورہ چورنگی کے واقع میں ملوث ہونے کی وجہ سے ، انہوںنے جیل سے ہی میئر بلدیہ کا انتخاب جیتا۔ اگر واقعی اسپیکر اور ممبران اسمبلی کرپٹ ہیں ، اور مئیر بلدیہ شہداء کے معاملے میں ملوث ہیںتو کیا پاکستان واقعی قحط رجالی کا شکار ہے ۔سیاست کو مندرجہ بالا سطور میں منا فقانہ ، اور مفاد پرستانہ اسلئے تحریر کیا ہے کچرہ اور گندگی کا شور صوبہ سندھ میںاسلئے ہے کہ وہاںوفاق میں قائم حکومتی پارٹی کی حکومت نہیں ورنہ کیا پنچاب ، بلوچستان ، سرحد پیرس ، اور سوئیزر لینڈ ہیں جہاں کچرہ نہیں ، وفاق نے حکومت سندھ کو بدنام کرنے کیلئے گزشتہ دنوں دو یا تین مرتبہ شب خون مارنے کی کوشش کی ہے جو اچھی بات نہیں ، ایک دائووزیر جہاز رانی نے مارا اور دو ہفتہ نکال لئے ، کروڑوں روپیہ فنڈ جمع کرنے کی بات ہوئی کی کچرہ اٹھایا جائے گا ، معلوم ہوا کہ کچرہ ایک جگہ سے اٹھا کر شہر ہی میں دوسری جگہ پھینک دیا ہے ۔دوسرا دائوکراچی کے مسئلے پر وفاق کی جانب سے ایک کمیٹی بنا کر اور تیسرا بڑا دائو وزیر قانون نے اپنی قانونی منہ شگافیوں کے ذریعہ مارا شور مچنے کی وجہ سے وہ اپنے بیان سے تحریک انصاف حکومت کے دیگر مواقع کی طرح یکسر ہی اپنے بیان سے مکر گئے ، جبکہ انہوں نے آئین کی دفعات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا ابھی تو آئینی دفعہ کا بات کررہاہوں مگر میںجو کرونگا اور جو میرے دل میں ہے اسکا ذکر فی الحال نہیں کررہا ، نہ جانے وہ کیا بات تھی ؟جو انکے منہ سے نکلنے سے قبل ہی دم توڑگئی۔ غرض کراچی کے ساتھ کھیل پر کھیل کھیلا جارہا ہے جواب میں بچہ بلاول نے سندھودیش کی بات کردی وہ چاہے کسی بھی پیرائے میں کی ہو مگر کسی دیش ویش کی بات کرنا ان لوگوںکو ہوا دینے کے مترادف ہے جو واقعی پاکستا ن میں صوبوں اور قوم میں اتحاد نہیں چاہتے ، جس روز بلاول نے سندھو دیش کی بات کی اس روز ہمار ا ازلی دشمن بھارت کا میڈیا چیخ چیخ کر اس بات کو ہوا دے رہا تھا ۔ اسوقت پاکستان علاقے کے ایک بہت بڑے بدمعاش سے برسرپیکار ہے کشمیری مجاہدین اپنی شہادتیں دے رہے ہیں اور اس امید پر قائم ہیں چاہے دنیا وہاںبھارت کے ظلم و ستم سے آنکھیں چرائے مگر پاکستان ایک ایٹمی طاقت انکے ساتھ کھڑا ہے ۔ پاکستان پر کشمیر کے حوالے سے جتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوچکی ہے وہ ذمہ داری صرف حکومت اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے عہدہ برا ء نہیں ہوسکتی ، شنید ہے اس اہم موقع پر حزب اختلاف کے جیلوں میں موجود رہنماء اپنی رہائی بلکہ یوںکہا جائے تو بہتر ہوگا کہ ’’مقدمات سے جان چھڑانے کی‘‘ کوششوںمیں مصروف ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم کا اعلان کہ کوئی ڈھیل نہیں تو پھر حکومت ہی کہ دیگر لوگ اور وزراء دوسری جانب یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں اس لئے فروغ نسیم سے گزارش ہے کہ جیلوں کے معاملے میں قوانین کو سخت نہ بنائیںچونکہ ہمارا ہاںیہ ہی روائت ہے کہ حکومت جانے کے بعد انہیں مقدمات اور دفعات کے وہی شکار ہوتے ہیں جو ان قوانین کے موجد تھے جیسے آج پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے بنائی ہوئی نیب اور اسکے قوانین خود انکے گلے کا پھندا بن گئے ہیں۔ عوام کی یہ ہی آواز ہے کہ فی الحال ان معاملات کو پس پشت ڈال کر تمام تر توجہ صرف اور صرف کشمیر کے موضوع پر لگائی جائے وزیر اعظم کے ہمراہ اسوقت صرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہی ہیں جو دن رات کشمیر کے مسئلے پر مصروف ہیں۔ وزیر اعظم تو دیگر امور کی بھی نگرانی کرتے ہیں اسلئے شاہ محمود قریشی کی مسئلہ کشمیر پر ان مساعد حالات میں جب ہمیںدنیا کی توجہ اپنے پالیسی بیان پر دلانے میں اور انہیں اس پالیسی بیان کا ہمنواء بنانے میںمشکلات پیش آرہی شاہ محمود قریشی کے محنت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ، محنت اگر بیرون ملک سفارت کاروںنے مستقل بنیادوںپر کی ہوتی شاہ محمود قریشی کو اتنی محنت نہ کرنی پٹرتی۔مسئلہ کشمیر پر نوابزدہ نصراللہ مرحوم کے بعد کسی بھی کشمیر کمیٹی نے صرف کوئی کارہائے نمایاں انجام نہیں دیا اسلئے تھکے ہوئے لوگوں کو سیاسی رشوت کے طور پر چئیرمین کشمیر بنادیا جاتا ہے ۔ سابقہ چیئرمین مولانا فضل الرحمان کو ہی دیکھ لیںکشمیر کی محبت دل سے ہوتی ہے مگر موصوف اسوقت جبکہ مذہبی قوتوںکو بھی مسئلہ کشمیر پر حکومت کا ساتھ دینا چاہئے آئندہ ماہ لا حاصل دھرنا دیکر موجود ہ حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے ہیںکیا یہ اچھا ہوتا کہ وہ یہ دھرنا ، اجتماع بھارت کی مذمت ، اور عالمی اداروںکی توجہ مسئلہ کشمیر پر دلانے کیلئے کرتے ۔۔ مگر افسوس ۔۔نہ جانے انکا ایمپائر کون ہے ؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن